سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس

پیر 4 دسمبر 2023 18:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2023ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس سینیٹر ذیشان خانزادہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں ٹی سی پی کے ذمہ مختلف سرکاری اداروں اور کمرشل بینکوں کو واجب الادا قرضوں اور مارک اپ کی ادائیگی کے حوالے سے بحث کی گئی ۔کمیٹی نے قرضہ جات کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹی سی پی کا مجموعی قرضہ 259,256.78 ملین روپے ہے۔ چیئرمین ٹی سی پی نے کہا کہ سبسڈی ادائیگیوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرا رہے ہیں ،وصول کنندہ ایجنسیوں کو باقاعدہ یاددہانی کرائی جا رہی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ متعلقہ وفاقی اور صوبائی وصول کنندگان کے ساتھ بار بار میٹنگز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں بتایا گیا کہ 1950کےدرآمدات اور برآمدات (کنٹرول) ایکٹ میں بین الاقوامی تجارت کو ریگولیٹ کرنے کے علاوہ تمام اشیا کی درآمدات اور برآمدات کو بالترتیب برآمدی آرڈرز اور امپورٹ پالیسی آرڈرز کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا ہے، جووفاقی حکومت کی منظوری کے بعد جاری کیے جاتے ہیں۔

اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ برآمدی آرڈرز اور امپورٹ پالیسی آرڈرز میں پاکستان سے خوراک کی برآمد اور درآمد پر پابندیاں ہیں۔ ایکٹ میں شمولیت کے لحاظ سے پابندیاں مناسب نہیں ہوں گی، کیونکہ یہ ایکٹ وفاقی حکومت کو تجارت کو منظم کرنے کے اختیارات فراہم کرتا ہے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بڑے اور خالص نمک کے ذخائر موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس کموڈٹی کی سالانہ مارکیٹ اربوں ڈالر میں ہے جو سالانہ بنیادوں پر مزید بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اجناس خام شکل میں بین الاقوامی سطح پر ایسی پالیسی کے بغیر برآمد کی گئی ہے جس سے پاکستان میں زیادہ سے زیادہ ریونیو دوبارہ حاصل کیا جا سکے، اور اس مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔ کمیٹی نے معاملے کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا اور ای پی او 22 کا ترمیم شدہ مسودہ مستقبل میں غور و خوض کے لیے طلب کیا۔

کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ وہ ایک ماہ کے اندر اس معاملے پر رپورٹ پیش کرے ۔مزید برآں سینیٹ کمیٹی نے معذور افراد کے لیے 1350cc تک کی کاروں کی ڈیوٹی فری درآمد پر بحث کی۔ اس معاملے پرسینیٹر محمد عبدالقادر نے کہا کہ معذور افراد کو استعمال شدہ کاریں درآمد کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کیونکہ اکثریت کے لیے نئی گاڑیاں خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت صنعت و پیداوار اور ایف بی آر نے معذور افراد کے لیے استعمال شدہ کاروں کی درآمد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ معذور افراد دس سال میں ایک بار کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر 1350cc تک کی نئی کاریں درآمد کر سکتے ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ معذور افراد 5 سال میں ایک بار 1500cc تک استعمال شدہ کاریں درآمد کریں۔

مزید برآں، کمیٹی نے سیلز ٹیکس میں چھوٹ کے لیے معاملہ سینیٹ کی فنانس کمیٹی کو بھجوا دیا۔کمیٹی کو کینو کی برآمدات بڑھانے کے لیے کیے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ پاکستان بنیادی طور پر افغانستان، متحدہ عرب امارات، روس، فلپائن، قازقستان اور انڈونیشیا کو کینو برآمد کرتا ہے۔ تاہم سیلاب کی وجہ سے گزشتہ سیزن میں کینوکی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے اور وزارت اب کینو کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کا ہدف رکھتی ہے جس سے موجودہ سیزن کے لیے 150 ملین ڈالر کا برآمدی ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی نے تجویز دی کہ وزارت جنوبی کوریا کو کینو کی برآمدی لسٹ میں شامل کرے کیونکہ وہاں پاکستان کی کینوکی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزارت کو ملکی سطح پر نمائش کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ مقامی لوگ مصنوعات کی طلب سے آگاہ ہو سکیں۔ چیئرمین کمیٹی نے وزارت کو سفارش کی کہ مردان، خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے سنگتروں کے لیے برآمدی حکمت عملی وضع کی جائے۔