آجر اور اجیر ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں،ڈاکٹر سجاد ارشد

ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان اپنے ممبروں کے علاوہ ورکروں کے مفادات کا بھی تحفظ کر رہی ہے

منگل 5 دسمبر 2023 12:18

مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2023ء) آجر اور اجیر ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں جبکہ ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان اپنے ممبروں کے علاوہ ورکروں کے مفادات کا بھی تحفظ کر رہی ہے۔ یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے اشتراک سے ملٹی نیشنل انٹر پرائزز اینڈ سوشل پالیسی کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوںنے کہا کہ پاکستان میں حالات بد سے بد تر ہو رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم بہتری چاہتے ہیں یا حالات کو ایسے ہی چلنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف جماعتوں نے معیشت کو اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ موجودہ حالات میں بہتری کیلئے انقلابی اقدامات اٹھانا ناگزیر ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے صنعتکاروں اور پالیسی سازوں میں قریبی رابطوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ فیصل آباد ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے مگر یہاں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں جبکہ پاکستان کی آبادی میں ہر سال 45لاکھ لوگوں کا اضافہ ہو رہا ہے جس سے معیشت پر دبائو مزید بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے تاجروں کی نمائندہ قومی تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈانڈسٹریز میں بھی تقسیم در تقسیم نے اِس کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ملک کیلئے وسائل مہیا کرنے اور برآمدات کرنے والوں کو چور کے نام سے پکار اجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کا تاجر جن حالات میں کام کر رہا ہے وہ قابل تحسین ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو سہولتیں مہیا کرنے کیلئے ون ونڈو کی بات کی جاتی ہے مگر حکومتی سطح پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی جا رہی ۔ تاہم انہوں نے کہاکہ تاجروں کے باہمی تنازعات کے حل کیلئے Mediation centre بنایا گیا ہے ۔ اللہ کرے یہ کامیاب رہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات نے لوگوں کو ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔

تعلیم یافتہ بچے بے روزگار ہیں اس لئے انہیں زراعت اور کاروبار کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فیصل آباد چیمبر میں سیمینار کے انعقاد کا خیر مقدم کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس سے قبل ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل سید نذر علی نے سوشل جسٹس اور ڈیسنٹ ورک کے حوالے سے خطاب کیا اور کہا کہ عام طور پر تاجر سوشل سیکورٹی کی کنٹری بیوشن کو دوسرے ٹیکسوں کی طرح بلاوجہ ٹیکس سمجھتے ہیں حالانکہ اِس سے اُن کے ورکروں کو سہولتیں ملتی ہیں اور وہ مطمئن ہو کے اپنے ادارے کی بہتری کیلئے پورے جذبے سے کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سندھ میں کنٹری بیوشن دینے کے باوجود سوشل سیکورٹی ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹر ہیں اور نہ دوائیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2سال قبل سوشل سیکورٹی کی کنٹری بیوشن پر سروے کرایا گیا جس سے معلوم ہوا کہ جمع ہونے والی رقم کا 5فیصد بھی مزدورں پر خرچ نہیں ہوتا۔ ورکروں کی تربیت کے حوالے سے ٹیوٹا اور دوسرے سرکاری اداروں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ یہ 20فیصد سے بھی کم مزدوروں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جبکہ کورس بھی غیر متعلقہ کرائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بے سوچے سمجھے قانون بنانے کی عادت ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کا قانون بنا دیا گیا ہے مگر اُن کی تربیت کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ انہوں نے سیالکوٹ کی ایک کمپنی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے 200ورکروں کو نکالنے کا فیصلہ کیا مگر یونین نے اپنی مراعات کم کر کے اِن کو نہ نکالنے کی بات کی اس سے تمام ورکروں کا روزگار بچ گیا اور بعد میں کمپنی کو اتنے آرڈر ملے کہ وہ نقصان بھی پورا ہو گیا۔

انہوں نے کہا کہ عام طور پر بڑی اور برآمدی کمپنیاں سماجی ذمہ داریاں پورا کرتی ہیں جبکہ اب انھیں ایک قدم آگے بڑھ کے دوسرے اداروں کو بھی اِس کے فوائد سے آگاہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ سکل ڈویلپمنٹ کا 80فیصد کام نجی ادارے کر رہے ہیں مگر اُن کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ فیڈریشن ڈس ایبلٹی ایوارڈ پر بھی کام کر رہی ہے جبکہ صنعتی امتیازات کے خاتمے کیلئے پہلے سے ہی کوششیں جاری ہیں۔

مسعود ٹیکسٹائل کے ڈائریکٹر ناصر علی نے ایس ایم ای سیکٹر کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ترقی سے ہی ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کا ادارہ 28ہزار ورکروں کو روزگار مہیا کر رہا ہے جبکہ اُن کی وجہ سے خواتین کو 24گھنٹے کام کرنے کیلئے قانون سازی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایم ٹی ایم نے برے حالات کے باوجود اچھی پریکٹسز کو جاری رکھا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اگر یورپ کے کسی ایک ملک کیلئے سر ٹیفکیٹ مل جائے تو اسے برآمدات کیلئے یورپی یونین کے تمام ملکوں کیلئے مؤثر سمجھا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ مسعود ٹیکسٹائل نے ہنر مند افرادی قوت کی تیاری پربھر پور توجہ دی اور 22سالوں میں 3500مشین آپریٹرز اور 19,000سپر وائزر تیار کئے جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔

انہو ںنے کہا کہ 2001ء میں اُن کی ایک فیکٹری تھی جبکہ اس وقت دس فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ورکروں کے حالات کار بہتر بنانے کے علاوہ اب سپلائی چین سے وابستہ افراد کو بھی اپنے ورکروں کا تحفظ کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ورکروں کی تربیت کرنے والے تمام اداروں کو ایک وزارت کے ماتحت کر دیا جائے اس سے ڈیٹا جمع کرنے میں آسانی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ کرونا کے دوران جب دنیا کے کاروبار بند ہو رہے تھے ہمیں بے انتہا آرڈر ملے اور ہمیں 50ہزار ہنر مند افرادی قوت کی کمی کا سامنا کرنا پڑا جسے ہم نے اپنے طور پر پورا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر پالیسیوں میں بہتری کر دی جائے تو صرف فیصل آباد 10سے 20 ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے۔ آخر میں نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی اور شفیق حسین شاہ نے سیمینار کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔