اسلام آباد ہائیکورٹ کا العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ

احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھیجنے کی استدعا مسترد

جمعرات 7 دسمبر 2023 23:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 دسمبر2023ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے اور احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھیجنے کی نیب کی استدعا مسترد کردی ہے۔عدالت نے مرحوم جج ارشد ملک کی ویڈیو عدالت میں چلانے کا عندیہ بھی دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ کیس میں نوازشریف کی اپیل پر میرٹ پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور احتساب عدالت کو معاملہ واپس بھیجنے کی استدعا مسترد کردی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ العزیزیہ ریفرنس میرٹ پر یہی عدالت سنے گی۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں العزیزیہ ریفرنس میں قائد ن لیگ نوازشریف کی سزا کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

(جاری ہے)

سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پیش ہوئے۔ان کے وکلائ اعظم نذیر تارڑ،امجد پرویز اور نیب کی جانب سے وکلائ کی ٹیم روسٹرم پر آئے، جب کہ ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل نیب نعیم طارق سنگھیڑہ بھی روسٹرم پر آگئے۔

وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ 2018 فیصلے کیخلاف یکم جنوری 2019 کو اپیل فائل ہوئی۔چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل امجد پرویز سے استفسار کیا کہ کیا یہ بھی پانامہ کیس سے متعلق تھی۔وکیل امجد پرویز نے کہاکہ تین ریفرنسز تھے جن میں دو میں بریت ہوچکی ہے۔اور ایک یہ ہے۔فلیگ شپ ریفرنس میں نیب نے اپیل واپس لے لی تھی۔نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات پرریفرنسز دائر کیے۔

ریفرنس میں ایک جیسے الزام تھے۔فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے نوازشریف کو بری کیا۔ایک ہی الزام پر الگ الگ ریفرنس دائر کیے گئے۔عدالت نے استفسار کیا کہ اس میں الزام کیا تھا۔وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ وہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس تھا۔ اس کیس میں 22 گواہ ہیں 13 وہ ہیں جنہوں نے ریکارڈ پیش کیا۔وقوعہ کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ نیب کا الزام ہے نوازشریف بے نامی دار ہیں۔کچھ ٹرانزیکشنز ہیں۔ان سے متعلق عدالت کو بتائیں۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل 2001 میں سعودی عرب میں بنی۔اس وقت نوازشریف پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے، العزیزیہ کو بیچ کرہل میٹل 2005/2006 میں بنائی گئی۔اس کمپنی سے نواز شریف کے تعلق کا کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

نیب کا سارا کیس نواز شریف کی ان کمپنیوں کی ملکیت ثابت کرنے کا تھا۔ان کمپنیوں کے شئیر ہولڈرز حسین نواز شریف، عباس شریف اور ایک خاتون تھیں۔ایم ایل ایز سعودی عرب کو لکھے گئے لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔والد نے العزیزیہ اسٹیل مل بنائی تھی۔اس اسٹیل مل کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔امجد پرویز نے بتایا کہ العزیزیہ 2001 اور ہل میٹل 2005 میں بنائی گئی۔

میاں شریف اپنی زندگی میں ہرطرح کے اخراجات خود کرتے تھے۔دونوں ملز بنانے کے وقت پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔امجد پرویز کے مطابق جے آئی ٹی کے سربراہ نے بھی دستاویزی ثبوت نہ ملنے کو تسلیم کیا ہے۔نواز شریف کی فیملی نے 1976 میں دبئی میں گلف اسٹیل ملز لگائی۔یہ گلف کی سب سے بڑی اسٹیل ملز تھی جو دبئی میں لگائی گئی۔یہ بعد کی بات ہے کہ وہ بعد میں منافع میں رہی یا نہیں۔

وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ بیٹے نے باپ کو باہر سے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھجوائی۔ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ بنانے کے چار سال بعد یہ رقم بھجوائی گئی۔2017 میں حسین نوازکے اکاؤنٹ سے جو رقم آئی وہ ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہر کی گئیں۔نیب پراسیکوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق زیرالتوا تھی۔انہوں نے اضافی شواہد سے متعلق درخواست دی تھی۔

یہ میرٹ پر دلائل دے رہے ہیں لیکن ان کی وہ درخواست زیرالتوا ہے۔وہ جج ویڈیو اسیکنڈل کیس تھا جج صاحب نے بھی پریس ریلیز دی تھی۔عدالت نے نیب پراسیکوٹر کو بولنے سے روک دیا۔جس کے بعد نوازشریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جج ویڈیو اسیکنڈل سے متعلق اپنی درخواست کی پیروی نہیں کریں گے۔جج ارشد ملک فوت ہوچکے ہیں۔ہم اس درخواست کی پیروی نہیں کر رہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے کہا کہ کیا اس درخواست کی پیروی کریں گے۔تو ہم اس کو دیکھیں۔ارشد ملک اب نہیں ہیں لیکن باقی لوگ ابھی موجود ہیں۔آپ کا فیصلہ کیا ہے درخواست کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔وکیل امجد پرویز نے کہا کہ مجھے ہدایت دی گئی ہے۔درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔میں جج ارشد ملک کے حوالے سے دعا گو ہوں۔جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سے استفسار کیا کہ کن گراؤنڈز پر جج ارشد ملک کو بر طرف کیا گیا تھا۔

آپ کا اختیار ہے جج ارشد ملک کا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔کیونکہ درخواست تو موجود ہے۔ہم یہاں اسکرین لگا دیں گے اور وڈیو چلا دیں گے۔یہ بات یاد رکھیں کہ یہ دو دھاری تلوار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔نوازشریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں ضرور تکلیف ہوگی دوبارہ جائیں گے اور دوبارہ دلائل دیں گے۔جسٹس گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کیس واپس جانے پر نیب وہی رویہ اختیار کرتا ہے جو یہاں کیا تو پھر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اب ہمارے پاس دو آپشن ہیں یا خود سنیں یا ریمانڈ کردیں۔

صاف بتائیں کون سا آپشن لیں گے۔وکیل اعظم نذیر نے کہا کہ بہت سی باتیں عدالت کے سامنے نہیں کرنا چاہتا۔عدالت نے وکلائ کے دلائل سننے کے بعد سماعت منگل تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ ن لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف صبح 9 بجکر 30 منٹ پر جاتی امرا سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے لئے روانہ ہوئے تو مریم اورنگزیب، بلال کیانی اور دیگر اسٹاف بھی ان کے ہمراہ تھے۔

نوازشریف کا قافلہ ایئرپورٹ سے منسٹر انکلیو پہنچا، جہاں لیگی رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ رہا۔واضح رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام ا?باد کی احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔نواز شریف نے احتساب عدالت سے سزا کیخلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔جب کہ نیب نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا بڑھانے کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔

سابق وزیراعظم نے پنجاب حکومت کو سزا معطل کرنے کی درخواست کی تھی۔جس پر 24 اکتوبر 2023 کو نگراں پنجاب کابینہ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کی منظوری دے دی تھی۔محکمہ داخلہ پنجاب نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کرنے کا نوٹیفکیشن 25 اکتوبر کو جاری کیا۔جس میں بتایا گیا کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلے کے لیے نگران کابینہ نے وزرائ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

اس کمیٹی نے نواز شریف کے وکلائ امجد پرویز، عطائ تارڑ اور ڈاکٹر عدنان کو شنوائی کا موقع دیا۔نوازشریف کی جانب سے سزا معطلی کی درخواست میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کی طبعیت مکمل ٹھیک نہیں ہے اور وہ جیل نہیں کاٹ سکتے۔صوبائی وزرائ ، بیورو کریٹس، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے اجلاس کے بعد سفارشات تیار کیں۔ذرائع کے مطابق کمیٹی نے ماضی کی بعض مثالوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں سزا معطل کرنے کی سفارش کی۔جس کی نگراں وزیراعلیٰ اور کابینہ نے منظوری دے دی۔وزیراعلیٰ پنجاب اور کابینہ کی منظوری کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کی ہدایت پر نوازشریف کی سزا معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔