انگریزی استعمار کے خلاف پشتون افغان عوام اور ان کے سرفروش اور نڈر رہنماں نے بے مثال جدوجہد کر کے لازوال قربانیاں دی،مشترکہ بیان

جمعہ 8 دسمبر 2023 00:00

ژوب (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 دسمبر2023ء) پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر نصراللہ خان زیرے نے کہا ہے کہ پارٹی کے نام کی تبدیلی اور نئے پرچم کی کشائی کے ساتھ ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ پارٹی کی نظریاتی سیاست اور قومی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ برحق بیانیے کی تکمیل کی جدوجہد میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑینگے ان خیالات کا اظہار انہوں نے ژوب میں پارٹی پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس تقریب سے پارٹی کے سینئر ڈپٹی چیئرمین رضا محمد رضا ، مرکزی سیکرٹری بایزید روشان، صوبائی نائب صدر عبدالقیوم ایڈووکیٹ، صوبائی ڈپٹی سیکریٹری نازک شیرانی، مولوی عبداللہ مندوخیل اور زلمئی مندوخیل نے خطاب کیا۔اس سے قبل پارٹی رہنماں کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جو مختلف شاہراہوں سے گزرنے کے بعد پارٹی کے دفتر پر ایک جلسے کی شکل اختیار کر لی۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ انگریزی استعمار کے خلاف پشتون افغان عوام اور ان کے سرفروش اور نڈر رہنماں نے بے مثال جدوجہد کر کے لازوال قربانیاں دی اور اسی سلسلے میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور ان کے سیاسی رفقا نے "انجمن وطن "اور "ورور پشتون "کے نام سے پارٹی قائم کی۔ اسی طرح ملکی سطح پر نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں ورور پشتون، مولانا بھاشانی کی عوامی لیگ، سندھ ہاری کمیٹی ، استمان گل اور دیگر سیاسی قوتیں شامل ہوئی۔

آگے چل کر قومی سوال پر نیپ میں اختلافات پیدا ہوئے اور یہ پارٹی بھاشانی گروپ اور ولی خان گروپ میں تقسیم ہوئی ۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد خان شہید اور ان کے سیاسی رفقا نے پشتونخوا نیپ کے نام سے ایک نئے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی جس نے خصوصی طور پر جنوبی پشتونخوا میں سیاسی شعور کی بیداری کیلئے مثالی جدوجہد کی ۔ اسی طرح 1986 میں پشتونخوا نیپ کے عبدالرحیم خان مندوخیل ، رزاق خان دوتانی اور پشتونخوا مزدور کسان پارٹی کے شیرعلی باچا، مثل خان لالا نیپہلے قدم کے طور پر دونوں پارٹیوں پر مشتمل پشتونخوا ملی عوامی اتحاد تشکیل دیا جو 1989 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں تبدیل ہوا۔

اس پارٹی نے پشتونخوا وطن کی محکومی سے نجات، ملک میں جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور آزاد افغانستان کی آزادی ، سالمیت اور خودمختاری کی تحفظ کیلئے اہم کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے پشتونخوا میپ کے بیانیے نیعوامی محبوبیت حاصل کی اور عوام نے 2013 کے الیکشن میں پارٹی کے امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔لیکن بدقسمتی سے اس وقت کے پارٹی سربراہ نے نہ صرف تمام حکومتی امور میں پارٹی کے اداروں کو یکسر نظرانداز کیا بلکہ پارٹی کے نظریاتی سیاست اور بیانیے کو تبدیل کرنے کیلئے شخصی طور پر ایسے فیصلے کئے جسکی وجہ سے پارٹی میں سنگین اختلافات سامنے آئے اس کے باوجود بھی انہوں نے پارٹی کے اعلی اداروں کے اجلاس منعقد کرنے سے مسلسل انکار کیا ، پارٹی آئین کے ماوارا اقدامات اور انکے شخصی انا پرستی کے نتیجے میں پارٹی کو دو لخت کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے نظریاتی اور حقیقی رہنماں اور کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو پارٹی کے حقیقی بیانیے سے دستبرداری ہر گز قبول نہ تھی اسی لئے انہوں نے پارٹی کے نظریے اور بنیادی سیاست کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ، پارلیمنٹ کی بالادستی ، قوموں کی برابری کی بنیاد پر رضاکارانہ فیڈریشن کے قیام، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی سیاست میں مداخلت کے خاتمے اور آزاد وشفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے انتھک جدوجہدجاری رکھی گی ۔

اس کے علاوہ افغانستان کی سالمیت ، ملی حاکمیت، بنیادی انسانی حقوق کی بحالی ،وسیع البنیاد حکومت کے قیام، لوئے جرگہ کے انعقاد اور اس کے ذریعے آئین کی فراہمی، آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد ، منتخب نمائندوں کو پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی جیسے بنیادی مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کوششوں میں مصروف ہے۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ آنے والے انتخابات میں سیاست کو بے توقیر کرنے ،کمیشن و کرپشن اور کاروبار کا ذریعہ بنانے والے عناصرکا سخت احتساب کریں اور اپنے ووٹ کی طاقت سے عوام پر مسلط ہونے والے ان تمام منفی عناصرکو مسترد کردیں