وزیراعلی کا کراچی واٹر بورڈ کو صنعتی مقاصد کیلئے زیر زمین پانی کے استعمال کیلئے میٹر لگانے کا حکم

جسٹس (ر) مقبول باقر کی جانب سے صنعتکاروں کو سائٹس کے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی کی یقین دہانی

منگل 12 دسمبر 2023 18:40

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 دسمبر2023ء) نگراں وزیراعلی سندھ جسٹس (ر)مقبول باقر نے کراچی کی مختلف سائٹس کے صنعتکاروں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے واٹر بورڈ کو ہدایت کی ہے کہ زیر زمین بوروں کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کا ٹیرف وصول کرنے کیلئے میٹرز لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی مقاصد کیلئے میٹھے پانی کو سطحی پانی میں ملانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ زیر زمین پانی کے مختلف چارجز ہوتے ہیں جبکہ واٹر بورڈ کی جانب سے صنعتکاروں کو فراہم کیے جانے والے میٹھے پانی کے چارجز مختلف ہیں اور دونوں نرخ صنعتی ہیں۔

انہوں نے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ پانی کی چوری کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں جبکہ واٹر بورڈ انکے صنعتی یونٹس کو پانی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنائے گا۔

(جاری ہے)

وزیرعلی نے کہا کہ انکی حکومت صوبے میں کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی خواہاں ہے جس کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت ممکن ہو گا جب صنعتکار معائنے کیلئے اپنا تعاون بڑھا کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں گے اور مزید کہا کہ تمام سائیٹس کا بنیادی انفرااسٹرکچر متعلقہ ایسوسی ایشنز کی نگرانی میں تیار کیا جا رہا ہے۔

منگل کو وزیراعلی ہاس میں اجلاس ہوا جس میں وزیر صنعت و روینیو یونس ڈھاگا، چیف سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم، چیئرمین پی اینڈ ڈی شکیل منگنیجو، سیکریٹری وزیراعلی رحیم شیخ، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، سینئر ممبر بورڈ آف روینیو زاہد عباسی، سیکریٹری خزانہ کاظم جتوئی ، سیکرٹری بلدیات منظور شیخ، سیکرٹری انڈسٹریز، ایم ڈی واٹر بورڈ، ایم ڈی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ،ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم رند اور دیگر نے شرکت کی جبکہ صنعتکاروں میں زبیر موتی والا، میاں زبیر، جاوید بلوانی، سلیمان چاولہ، کامران عربی، مجید عزیز اور دیگر شامل تھے ۔

صنعتکاروں نے وزیراعلی کے سامنے پانی کی قلت، شاپنگ سینٹرز میں آتشزدگی کے واقعات، جام صادق پل کی خستہ حالی، اسلامیہ کالج میں فلائی اوور کی تعمیر اور صنعتی یونٹس کو پانی و قدرتی گیس کی فراہمی جیسے مسائل رکھے ۔ وزیراعلی نے صنعتکاروں سے ہر مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا اور محکمہ کے متعلقہ سیکرٹری سے انکا حل طلب کیا۔ پانی کی قلت: وزیراعلی نے پانی کی قلت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ صنعتی یونٹ واٹر بورڈ کی لائنوں سے براہ راست پانی چوری کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے اس لیے واٹر بورڈ نے انکے کنکشن منقطع کرنا شروع کر دیے ہیں ۔اور واٹر بورڈ پر زور دیا کہ درخواست دہندگان صنعتی یونٹوں کو پانی کا کنکشن فراہم کیا جائے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ صلاح الدین نے وزیراعلی کو بتایا کہ انہیں پانی کے کنکشن کیلئے 100 درخواستیں موصول ہوئی ہیں، انہیں نئے کنکشن دینا شروع کر دیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سائٹ کو 10 ایم جی ڈی پانی فراہم کرنے پر سائٹ کراچی کی پانی کی کمی پوری ہو جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ حب آبی ذخائر سے والیکا ہسپتال تک پانی کی فراہمی کا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد سائٹ ایریا میں موجودہ نظام کو کچھ اپ گریڈ کیا جائے گا۔ اسکیم پر تقریبا 2.4 ارب روپے لاگت آئے گی۔ اس پر وزیراعلی نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو اسکیموں کی سمری بھیجنے کی ہدایت کی جبکہ انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس نئی اسکیم کو آگے بڑھانے کیلئے الیکشن کمیشن پاکستان سے اجازت لیں۔

مسٹر صلاح الدین نے بتایاکی کہ صنعتکاروں کی جانب سے بڑی تعداد میں غیر قانونی بورز بنائے گئے ہیں جن میں سے 140 کی واٹر بورڈ نے رجسٹریشن کرائی ہے اور باقی بوروں کی رجسٹریشن جاری ہے۔اس پر وزیراعلی نے ایم ڈی واٹر کو ہدایت کی کہ وہ زیر زمین پانی کی کھپت ریکارڈ کرنے کیلئے میٹر نصب کریں اور مناسب نرخ مقرر کریں اور متعلقہ صنعتکار سے چارج لینا شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے پانی کے صنعتی نرخ مختلف ہیں جبکہ زیر زمین پانی کے نرخ مختلف ہوں گے جو واٹر بورڈ وصول کرے گا۔ فائر فائٹرز: صنعتکاروں نے فائر فائٹنگ سسٹم کا معاملہ اٹھایا۔ سائٹ کے پاس انکے فائر ٹینڈر ہیں اور انہوں نے 60 گیلن کا پانی کا ٹینک بنایا ہے لیکن انکے پاس اسے بھرنے کیلئے پانی نہیں ہے۔ اس پر وزیراعلی نے کہا کہ فائرفائٹنگ سسٹم کیلئے میٹھے پانی کی ہی ضرورت نہیں اس کیلئے گندے پانی کو معمولی ٹریٹمنٹ کے بعد بھی استعمال میں لایاجا سکتا ہے۔

انہوں نے سائٹ اور محکمہ صنعت کو گندے پانی کے ٹریٹمنٹ کیلئے ایک چھوٹی سکیم تیار کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر سائٹ پر فائر فائٹنگ سسٹم تیار کیا جائے گا۔ کراچی چیمبر کے نمائندوں نے نشاندہی کی کہ عائشہ منزل پر جلائی گئی عمارت کو ایس بی سی اے نے کلیئر کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود اسے کاروباری سرگرمیوں کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔

وزیراعلی نے سیکرٹری بلدیات منظور شیخ کو معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی۔ گیس: صنعتکاروں نے وزیراعلی سے کہا کہ انھیں آر ایل این جی نہیں چاہئے لیکن انہیں صوبہ سندھ میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس فراہم کی جائے۔ اس پر وزیراعلی نے کہا کہ وہ وزیر اعظم کو ڈی او لیٹر لکھیں گے تاکہ سندھ کو قدرتی گیس میں اس کا جائز حصہ دیا جائے۔ مہران ہائی وی: صنعتکاروں نے بتایا کہ مہران ہائی وے خستہ حالی کا شکار ہے۔

انہوں نے وزیر اعلی سے اسکی تعمیر نو کی درخواست کی۔ وزیراعلی نے چیئرمین پی اینڈ ڈی کو ہدایت کی کہ وہ اسکیم کی جانچ پڑتال کریں اور اگر ابھی تک اس پر کام نہیں کیا گیا ہے تو اسے شروع کیا جائے۔ اسلامیہ کالج فلائی اوور: وزیراعلی کو بتایا گیا کہ اسلامیہ کالج روڈ پر سست رفتاری سے فلائی اوور بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے وزیراعلی سے درخواست کی کہ ایک انڈر پاس تعمیر کیا جائے تاکہ اسے جلد از جلد مکمل کیا جاسکیجسکی باعث شدید ٹریفک جام ہو رہا ہیاور اس مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔

وزیراعلی نے چیئرمین پی اینڈ ڈی کو مسئلہ حل کرنے کی ہدایت کی۔ بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی: صنعتکاروں نے نشاندہی کی کہ کراچی، سپر ہائی وے، نوری آباد اور کوٹڑی جیسی تمام سائٹس کا انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔ اس پر وزیر صنعت یونس ڈھاگا نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ سائٹ ممبران پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو انفراسٹرکچر کے معیار، رفتار اور مناسب عملدرآمد کی نگرانی کریں گی۔

صنعتی علائقوں کوخوبصورتی: وزیراعلی نے صنعتکاروں پر زور دیا کہ وہ اپنے صنعتی یونٹس کے علاقوں کو ہریالی، پکی سڑکوں، اسٹریٹ لائٹس اور بیٹھنے کیلئے عوامی مقامات تیار کریں، اگر تمام صنعتی یونٹس اپنے علاقوں کو ترقی دینا شروع کر دیں تو پوری سائٹس ایک خوبصورت شکل دے گی۔ صنعتکاروں نے اپنے علاقوں کو ترقی دینے پر رضامندی ظاہر کی اگر متعلقہ ادارے کے ایم سی، ٹانز، سیپا اور دیگر انہیں ہراساں نہ کریں۔ وزیراعلی نے محکمہ صنعت کو ہدایت کی کہ بیوٹیفکیشن پلان پر عملدرآمد کیلئے صنعتکاروں کا خیال رکھا جائے۔ قبل ازیں وزیر صنعت و روینیو یونس ڈھاگا نے وزیر اعلی کو صنعتکاروں کے مسائل پر تفصیلی بریفنگ دی اور انہیں حل کرنے کیلئے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔