ہمیں بلوچستان سے عشق ہے اسی عشق کی وجہ سے ہم نے لاشیں اٹھائی،جیل و زندانوں کا سامنا کیا،اختر جان مینگل

پیر 5 فروری 2024 22:35

%خضدار (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 فروری2024ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ حلقہ این ای256 اور حلقہ پی بی خضدار تھری سے بی این پی اور جے یو آئی کے مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہمیں بلوچستان سے عشق ہے اسی عشق کی وجہ سے ہم نے لاشیں اٹھائی،جیل و زندانوں کا سامنا کیا،جس کو سر زمین سے عشق نہیں وہ کیسے سر زمین کا تحفظ کر سکتا ہے،سیاست ایک قومی خدمت ہے بعض لوگ اسے تجارت سمجھتے ہیں عوام سیاسی تاجروں کی چال بازی سے ہوشیار رہیں بلوچستان کے لئے ہمارے اباو اجداد نے قربانیاں دی ہیں خود کو بلوچستان کا وارث بلوچستان کا لیڈر کہنے والے اسمبلی میں بلوچستان کا نام تک نہیں لیتے ہمارا مقابلہ خود کو سیاسی کہنے والے مخالفین سے نہیں بلکہ ان سے ہے جنہوں نے بلوچستان کے وسائل لوٹا،ماوں کی گود اجاڑ دئیے،والدین سے ان کی اولادیں چھین لئے،بلوچ قوم کے پیاروں کو لاپتہ کیا نوابوں اور سرداروں کے قریب بلوچ خواتین کی لانگ مارچ گزری مگر یہ لوگ ان خواتین کی سروں پر چادر تک نہیں رکھے یہ کیسے بلوچ قوم کے رہنما و رہبر ہو سکتے ہیں عوام آٹھ فروری سے پہلے بی این پی اور جے یو آئی کے حق میں فیصلہ دے دیا ان خیالات کا اظہار انہوں نے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اسٹیڈیم میں منعقدہ انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران کیا جلسہ عام سے جمعیت علما اسلام کے مرکزی سرپرست مولانا قمر الدین،سینیٹرمولانا فیض محمد سمانی،ڈاکٹر قدوس بلوچ،حلقہ پی بی 19 خضدار ٹو کے مشترکہ امیدوار میر یونس عزیز زہری،حلقہ پی بی 18 خضدار ون کے امیدوار وڈیرہ غلام سرور موسیانی،سابق ایم این اے میر محمد عثمان ایڈووکیٹ،سابق سینیٹرمیر خالد بزنجو،مولانا محمد صدیق مینگل،حیدر زمان بلوچ،مولانا محمد اسحاق شاہوانی،سفر خان غلامانی،مولانا عنایت اللہ رودینی،حافظ جمیل احمد ابرار،مولانا بشیر احمد عثمانی اور دیگر نے خطاب کیا جبکہ اس موقع پر مینگل قبیلے کے سردار اسد اللہ مینگل،سردار نصیر احمد موسیانی،سابق ایم این اے میر عبدالروف مینگل،چیئرمین لعل جان بلوچ،چیئرمین واحد بلوچ،میر گل خان ساسولی،آغا سلطان ابراہیم،شفیق الرحمن ساسولی،چیئرمین رشید بلوچ،ٹکری جھالاوان محمد رضا شاہوانی سمیت دیگر بھی موجود تھے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہمارا مادر وطن ہے میں سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کی قدر کریں کیونکہ بلوچستان ہی ہماری قومی شناخت ہے اگر خدانخواستہ بلوچستان کو کچھ ہوا تو یاد رکھیں آج ہندوستان سے آنے والے مہاجرین یا افغان مہاجرین کا جو حال ہے وہ ہمارا حال ہو گا اس لئے میں فخریہ کہتا ہوں کہ مجھے بلوچستان سے عشق ہے اور میں یہ کہتا ہوں کہ مرتے وقت کلمہ اور اس سے قبل بلوچستان میرے زبان پر ہوسردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ سیاسی ایک عظیم قومی خدمت کا نا م ہے بعض سیاست کو بھی تجارت سمجھتے ہیں سابق عوام ایسے تاجروں سے ہوشیار رہیں کہ یہ تاجر بلوچستان کے نام تک کو فروخت کرینگے اگر ہم تاریخ کا مشاہدہ کریں تو تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارے اباو اجداد نے بلوچستان کے لئے قربانیاں دی ہیں اور آج بھی ہم بلوچستان اور بلوچ قوم کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں لاشیں اٹھا رہے ہیں جیل زندانوں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب بعض لوگ خود کو بلوچستان کا لیڈر کہتے ہیں،بلوچ قوم کی لیڈر کہتے ہیں ان میں یہ جرت نہیں کہ بلوچ نوجوانوں کے لاشیں پھکنے والوں کے سامنے احتجاج کریں ایسے لیڈری تو نہیں ہو سکتی نام بلوچستان کا استعمال کریں،فنڈز بلوچستان کے نام پر حاصل کریں اور جب بلوچستان کی حق نمائندگی کی بات ہو جائے پھر خاموشی اختیار کی جائے بلوچستان کو ایسے خوفزدہ لیڈروں کی ضرورت نہیں سردار اختر جان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقابلہ خود کو سیاسی کہنے والے مخالفین سے نہیں بلکہ ان قوتوں سے ہے جنہوں نے بلوچستان میں نوجوانوں کو لاپتہ کر رہے ہیں،بلوچ ماوں کی گودیں اجاڑ رہی ہیں والدین سے ان کی اولادیں چھین رہے ہیں سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچ خواتین کی لانگ مارچ جب خضدار پہنچی تو خلق جھالاوان اور بزنجو کے قریب سے گزری مجال ہے کہ کسی نے ان کے سر پر چادر ڈالی ان کے غم میں خود کو شریک کیا جو لوگ بلوچستان کے غم دکھ درد اور تکلیف میں ساتھ نہیں ہو سکتے وہ کیسے بلوچستان اور بلوچ قوم کے ہمدرد ہو سکتے ہیں بعض لوگ سولر پلیٹ،واشنگ مشینوں کے زریعے عوام کی ضمیر خریدنا چاہتے ہیں اور خود کو خضدار کا وارث کہتے ہیں عوام کی ضمیر اتنی سستی نہیں کہ انہیں دولت کی بل بوتے پر خریدا جا سکتے خضدار کے وارث ایک تاجر کو دے سکتے کہ وہ خضدار کی وارثی کریں انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں پہلے بھٹو کے نواسے کو خضدار لایا گیا انہیں عوام کے سامنے پیش کیا گیا جھالاون کے عوام بھولنے والے نہیں انہیں بھٹو کی 1973 کے اپریش اچھی طرح یاد ہے یہاں ایک وزیر اعلی گزرا ہے وہ کہتا تھا کہ میں خضدار کو مولہ سے پانی دونگا خضدار کو تو پانی نہیں دے سکا البتہ اس پانی کے پیسوں سے دبئی میں محل خرید لیا جو لوگ مجھ سے فنڈز کی حساب مانگتے ہیں وہ اس قابل نہیں کہ میں ان کو حساب دوں عوام کو ضرور حساب دونگا ہمارے ایم این ایز نے جو کام کئے وہ مخالفین کے سوچ سے باہر ہے البتہ وہ اپنا حساب دیں کہ جب مشرف کا دور تھا تو کون اقتدار کی کرسی میں چمٹے ہوئے تھی حاجی عطا اللہ محمد زئی،عبدالسلام ایڈووکیٹ،جمعہ خان رئیسانی سمیت دیگر شہدا کو جب شہید کیا گیا تو وزارتوں کے مزے کون اٹھا رہے تھی میں تو جیل میں تھا وہ اپنا حساب دیں کہ وہ کیوں عوام کو قتل ہوتے دیکھا اور خاموشی اختیار کی آج کے ہونے والے جلسہ میں عوام کی شرکت نے یہ ثابت کر دیا کہ عوام ٹھ فروری سے پہلے جمعیت اور بی این پی کے حق میں فیصلہ دے دیا جلسہ عام میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھیں۔