پاکستان میں نچلی ذات کے ہندووں کو مناسب نمائندگی کیوں نہیں؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 6 فروری 2024 12:20

پاکستان میں نچلی ذات کے ہندووں کو مناسب نمائندگی کیوں نہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2024ء) نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، پاکستان تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر اونچی ذات کے ہنددوں کو بڑے پیمانے پر جگہ دیتی ہیں لیکن وہ نچلی ذات کے سیاسی کارکنان کو اہمیت نہیں دیتی۔

پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کوسیاسی جماعتیں نامزدگی کے ذریعے پر کرتی ہیں۔

اکثریت کے باجود نشستیں کم

تھرپارکر سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے مقابلے میں اعلی ذات کے ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان میں ہندو برادری کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نچلی ذاتوں پر مشتمل ہے۔

(جاری ہے)

لیکن جب مختص سیٹوں پر حصہ دینے کا وقت آتا ہے تو ہمیں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔"

پاکستان الیکشن 2024ء: پہلی ہندو خاتون امیدوار ڈاکٹر سویرا پرکاش

رادھا بھیل کے مطابق چونکہ ان اونچی ذاتوں کے ہندو زیادہ تر کاروباری ہوتے ہیں۔ ”تو وہ یہ مخصوص نشستیں لیتے وقت اچھے خاصے پیسے خرچ کرتے ہیں اور اقتدار میں آ کر زیادہ تر کاروباری معاملات، لائسنسز کے اجرا اور دوسرے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

برسوں سے اونچی ہی ذات کے لوگ اراکین اسمبلی بنتے چلے آرہے ہیں۔"

سیاسی افق پر چھائے ہوئے ہندو رہنما

یہ صرف نچلے طبقات کے لیے جدوجہد کرنے والی رادھا بھیل کا ہی دعوی نہیں ہے بلکہ کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافی وینگس بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ نچلی ذات کے ہندوؤں کو سیاسی طور پر بہتر نمائندگی نہیں ملتی۔ وینگس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”نچلی ذات کے ہندو جیسے باگڑی، بھیل، کوہلی، اوڈ وغیرہ کو قومی اسمبلی، سینیٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں مناسب نمائندگی نہیں ملتی۔

"

وینگس کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت ملک کی دوسری بڑی جماعتیں دولت مند اور اونچی ذات کے ہندوؤں کو ترجیح دیتی ہیں۔ ”ہندو کمیونٹی سے سیاسی افق پر جو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی میں چھائے ہوئے ہیں وہ آپ کو ہر جگہ نظر آتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی، مکیش چاولہ، کھیل داس کو ہستانی وغیرہ وغیرہ۔ نچلی ذات سے صرف کرشنا کوہلی اور کچھ دوسرے لوگوں کو مخصوص نشستوں پر بھیجا گیا۔

"

وینگس کا کہنا تھا کہ عام نشستوں پر پی پی پی نے ہندو کمیونٹی سے لوگوں کو انتخابات میں کھڑا کیا ہے۔ ”لیکن ان امیدواروں کا تعلق بھی اونچی ذات سے ہے۔"

بے بنیاد الزامات ہیں

تاہم پاکستان ہندو فورم کے صدر ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ اس طرح کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ڈاکٹر چھابڑیا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”حقیقت یہ ہے کہ نچلی ذات کہ ہندوؤں میں سے جو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی بنے یا سینیٹ میں گئے۔

انہوں نے کبھی بھی کمیونٹی کے مسائل پر کھل کر بات نہیں کی۔ مثال کے طور پر جبری طور پر تبدیلی مذہب کے مسئلے کو ہی لیں۔ حالانکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر نچلی ذات کے ہندو ہوتے ہیں لیکن اس مسئلے پر سب سے زیادہ آواز رمیش کمار وانکوانی اور رانا چندر سنگھ نے اٹھائی جن کا تعلق اونچی ذاتوں سے ہے۔"

پاکستان میں تھر کے ہندو، انتہائی محروم طبقہ

ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کے مطابق ہندو کمیونٹی کو بہت سارے ایسے مسائل کا سامنا ہے جس پر بولنے کے لیے بہت جرات کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور بہت کچھ داو پہ لگانا پڑتا ہے۔

”کیونکہ نچلے طبقات سے آئے ہوئے لوگ ڈرے اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ ہندو کمیونٹی کے مجموعی مسائل پر ڈر اور خوف کے مارے کھل کے بول نہیں پاتے۔"

حل کیا ہے؟

ڈاکٹر جے پال کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی پانچ فیصد مخصوص نشستیں ہیں جبکہ یہی تناسب صوبائی اسمبلیوں میں بھی ہے۔ ”تاہم سندھ کے علاوہ کوئی بھی اسمبلی اس کوٹے کو موثر انداز میں پورا نہیں کرتی۔

اس کے علاوہ سینیٹ میں ہر صوبے سے ایک ایک اقلیتی رکن ہوتا ہے۔"

انتخابات کی تیاری، اقلیتوں پر بھاری

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے پانچ فیصد مخصوص نشستوں پر اقلیتوں میں سے کسی بھی رکن کو پارٹی قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان مخصوص نشستوں میں مزید یہ کوٹا نہیں ہے کہ اس میں سے ہندووں، سکھوں، پارسیوں، مسیحیوں یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کتنی کتنی نشستیں دی جائیں۔

یہ ہر سیاسی جماعت پہ منحصر ہے کہ وہ جس کو چاہتی ہے اسے انتخابات کے فارم جمع کراتے وقت نامزد کر دیتی ہے۔"

ایوب ملک کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے علاوہ اقلیتوں کے کارکنان کو بڑے پیمانے پر عام نشستوں سے بھی ٹکٹ دیا جانا چاہیے۔

رادھا بھیل کا کہنا تھا کہ اس کا حل آسان ہے۔ ”ہندووں کی مجموعی آبادی میں نچلی ذات کے ہندووں کی شرح آسانی سے معلوم کی جا سکتی ہے اور پھر سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اسی شرح سے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کریں۔"