میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے، جسٹس منصور علی شاہ

ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا، عدالتی معاون بھٹو کیس تاریخ کا واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں ، چیف جسٹس

پیر 26 فروری 2024 16:40

اسلام آبا د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2024ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔

بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

(جاری ہے)

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔

اس موقع پر عدالتی معاون نے کاہ کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔چیف جسٹس نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں اس پرجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں ہیں تو ایک ہائی کورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی تھی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔

تب چیف جسٹس پاکستان نے معاون سے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہی ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے تو ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لا نافذ تھا صرف یہ کافی نہیں ہے۔

عدالتی معاون نے بتایا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو کہ ججز پر دبا تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا کہ ہر کیس کھولا جائے۔اس پر عدالتی معاون خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بینچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی شامل تھے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 9 رکنی بنچ نے کیس سنا لیکن بعد میں 7 رہ گئے تھے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بینچ نے شروع کیا تھا لیکن پھر 6 رہ گئے تھے۔جسٹس امین الدین خان نے وضاحت دی کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔عدالتی معاون نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائی کورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمان کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتا ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے ہیں۔عدالتی معاون نے بتایا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا۔

اسی کے ساتھ عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہوئے۔بعد ازاں عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کردیا ۔بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ عدالت پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ عدالت کیا آرٹیکل3 /186 کے دائرہ اختیار میں یہ کر سکتی ہی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2 جی ریفرنس میں رائے دی، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لا کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ان سے دریافت کیا کہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں، 2013 میں ججوں کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ پاکستان کا فیصلہ موجود ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہی بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاون سے دریافت کیا کہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ یقیناکچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں اور کون سے ختم کیے جائیں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کا کہنا تھا کہ تشویش یہ ہے اس کے بعد اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کاکہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا اس لیے انصاف کا خون ہوا۔عدالتی معاون نے جواب دیا کہ جی ، میرا یہی موقف ہے۔بعد ازاں بھٹو ریفرنس میں بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس نسیم کی کتاب سے اہم حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھٹو کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد چیف جسٹس ہائی کورٹ مشتاق اٹارنی جنرل پیرزادہ کو لے کر جسٹس نسیم حسن شاہ سے ملنے آئے اور کہا کہ فیصلے کے خلاف اپیل والے بینچ میں آپ بیٹھیں، لہذا صرف اسی پوائنٹ پر سزائے موت کالعدم ہونی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ جب کتاب شائع ہوئی کیا جسٹس مشتاق زندہ تھی عدالتی معاون نے بتایا کہ شریف الدین پیرزادہ تو زندہ ہی تھے ، اس ملاقات کے بعد نسیم حسن شاہ پر لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تعصب منکشف ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود ان ک کے خلاف تعصب کی درخواست خارج کر دی گئی۔بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ہم سے تو کسی نے نہیں کہا یوں کرو، ساتھ ہی کہا، ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں، پھر کہا، ہو سکتا ہے وہ ہم سے بھی ان ڈائریکٹ کہتے ہوں، یوں کر لیں تو بہتر ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے عدالتی معاون ست پوچھا کہ یہ ان ڈائریکٹ کہنا کیا ہوتا ہی عدالتی معاون نے جواب دیا کہ میں تو ان کی باتیں ہی پوائنٹ آئوٹ کر رہا ہوں۔بیرسٹر صلاح الدین نے نسیم حسن شاہ کے افتخار احمد کو دئیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انٹرویو میں مانا کہ چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہو گئی تھی، نسیم حسن شاہ نے کہا سزا کم ہو سکتی تھی مگر بھٹو کے وکیل نے ناراض کر دیا تھا تو کیا سزائے موت کے کیس میں جج کو وکیل کے طرز عمل پر سزا سنانی چاہیی اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے کنڈکٹ کی سزا کلائنٹ کو نہیں دی جا سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہوئے۔بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ (آج) منگل کو ہم اس معاملے کے کریمنل پہلو کو سنیں گے۔اس دوران اعتزاز احسن بھی بطور معاون عدالت میں پیش ہوئے، ان کے آنے پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ پہلے کیوں نہیں آ رہے تھی جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہ کہ آپ کی جانب سے کسی نے بیان دیا تھا کہ آپ پیش نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کسی کو اعتراض نہیں تو اعتزاز احسن کو سن لیں گے، (آج) منگل کو عدالتی معاون منظور ملک کو سنیں گے۔اس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ کریمنل پہلو سے پہلے بلاول بھٹو کی طرف سے مجھے سنا جائے، میں نے بلاول کی جانب سے فریق بننے کی درخواست کی تھی، میرا صدر مملکت سے تعلق نہیں ہے۔بعد ازاں عدالت نے سماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھوایاجس کے مطابق عدالتی معاونین خالد جاوید اور صلاح الدین نے دلائل مکمل کر لیے ہیں، ریفرنس پر مزید سماعت منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے ہو گی۔