ذوالفقاربھٹو کو فیئرٹرائل کا موقع نہیں ملا ، سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پررائے

عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں، سپریم کورٹ

بدھ 6 مارچ 2024 13:16

ذوالفقاربھٹو کو فیئرٹرائل کا موقع نہیں ملا ، سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 مارچ2024ء) سابق وزیر اعظم پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے رائے دی ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا۔بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ رائے دی، اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔عدالت کی جانب سے ریمارکس دئیے گئے کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی متفقہ رائے ہے، کسی حکومت نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا۔انہوں نے ریمارکس دئیے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیاالحق کے دور میں ہوا، صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلہ کو دیکھنا کا موقع دیا، صدر مملکت نے ریفرنس بھیجا جسے بعد کی حکومتوں نے واپس نہیں لیا، یہ معاملہ مفاد عامہ کا ہے، تفصیلی رائے بعد میں دی جائیگی۔

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، ان کی سزا آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ریفرنس میں پوچھے گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو صدارتی ریفرنس پر تاریخی فیصلہ دیا، ہم تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں، تفصیلی فیصلے کے بعد بھرپور بات کر سکوں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے مانا کہ بھٹو کو فیئر ٹرائل نہیں ملا، عدالت نے کہا ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلیے فیصلہ سنارہیہیں، 44 سال بعد تاریخ درست ہورہی ہے۔بلاول بھٹو زر داری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کیس میں متفقہ رائے دی ہے، متفقہ فیصلے پرجج صاحبان اور وکلا کا شکرگزار ہوںانہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان میں جمہوری و عدالتی نظام مضبوط ہوگا، امید ہے فیصلے سے ہمارا نظام صحیح سمت میں آگے جائے گا۔

قبل ازیں 4 مارچ کو سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا تھا کہ کیا صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دی جا سکتی ہی جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل رضا ربانی نے جواب دیا تھا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔یاد رہے کہ 28 فروری کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کیخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گی تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہی جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھی