ای او بی آئی: انتظامیہ کی سنگین غفلت ، دس برس گزر جانے کے بعد بھی برطرف افسران سے 140 سرکاری گاڑیاں اور لیپ ٹاپ بازیاب نہ ہوسکے

منگل 19 مارچ 2024 16:47

ای او بی آئی: انتظامیہ کی سنگین غفلت ، دس برس گزر جانے کے بعد بھی برطرف ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2024ء) نجی شعبہ کے ملازمین کو پنشن فراہم کرنے والا قومی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں بعض بدعنوان اعلی افسران کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال اور فرائض میں غفلت کے باعث قومی فلاحی ادارہ لاقانونیت کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ جس کی زندہ مثال انتظامیہ دس برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود 2014 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر برطرف شدہ 385 افسران سے سرکاری گاڑیاں اور لیپ ٹاپ کی بازیابی میں ناکام رہی ہے ۔

اس سلسلہ میں ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر سوشل سیفٹی نیٹ پاکستان اسرار ایوبی نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ماضی میں 2010 تا 2013 کے دوران اس وقت کے انتہائی بدعنوان اور مطلق العنان چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے اپنے طاقتور سرپرستوں کی آشیر باد سے سیاسی بنیادوں پر 400 غیر قانونی بھرتیوں کے ذریعہ غریب ملازمین کے پنشن فنڈ میں اربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ۔

(جاری ہے)

جس کے نتیجہ میں غریب ملازمین کے پنشن فنڈ کو اربوں روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے دیگر سیاہ کارناموں میں ایک کارنامہ اپنے دور میں ای او بی آئی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے 400 لاڈلے افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز کرکے انہیں غیر قانونی طور پر 400 برانڈ نیو گاڑیوں اور لیپ ٹاپ اور دیگر غیر معمولی سہولیات سے نوازنا بھی شامل تھا ۔

اس مقصد کے لئے چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ملی بھگت سے 27 اکتوبر 2010 کو بورڈ کے 96 ویں اجلاس میں 400 لاڈلے افسران کے لئے ایک کار لون اسکیم متعارف کرائی تھی جس کے تحت سوزوکی موٹرز کمپنی سے ایک معاہدہ کے تحت بھرتی شدہ افسران کو آسان اقساط پر 1000 سی سی کی نئی سوزوکی کلٹس گاڑی فراہم کرنے کے لئے پنشن فنڈ سے کم از کم 9,32000 روپے فی افسر قرضے منظور کئے گئے تھے جبکہ بعض بااثر افسران نے اس کار اسکیم کے تحت دیگر برانڈ کی مہنگی گاڑیاں بھی حاصل کی تھیں ۔

بعد ازاں اس کار لون اسکیم کا دائرہ ادارہ کے مستقل افسران تک بھی وسیع کردیا گیا تھا ۔ اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ای او بی آئی میں افسران کے لئے پانچ برس کی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد اس کی تنخواہ کے مطابق گاڑی خریدنے کے لئے آسان اقساط پر قرضہ فراہم کیا جاتا تھا ۔ انتہائی بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سندھ کی ملی بھگت سے ان 400 سوزوکی گاڑیوں کے لئے گورنمنٹ آف پاکستان کیGP نمبر پلیٹ بھی منظور کرائی تھی ۔

لیکن اس دوران ای او بی آئی ایمپلائیز فیڈریشن آف پاکستان (سی بی ای)کے سیکریٹری جنرل مبشر رضی جعفری اور صدر میاں تجمل حسین( فیصل آباد ) نے چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے ای او بی آئی میں 400 خلاف قانون بھرتیوں اور غریب ملازمین کے پنشن فنڈ میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی پٹیشن نمبر 6/2011 دائر کردی تھی جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 17 مارچ 2014 کو آئین پاکستان کی دفعہ (3) 184 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے ای او بی آئی میں سیاسی بنیاد پر ہونے والی 400 غیر قانونی بھرتیوں میں سے 358 افسران کی بھرتیوں کو سراسر خلاف قانون قرار دیتے ہوئے ان لاڈلے افسران کی فوری برطرفی کا فیصلہ دیا تھا اور بڑے پیمانے پر بھرتی کے ذمہ دار سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو اپنے داماد راجہ عظیم الحق منہاس کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آپریشنز اسلام آباد کے کلیدی عہدہ پر بھرتی کرانے کے الزام میں اور چیئرمین ظفر اقبال گوندل سمیت ای او بی آئی کے 10 اعلی افسران کے خلاف نیب کو نیب احتساب عدالت اسلام آباد میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت دی تھی جو دس برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود تاحال زیر سماعت ہے ۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ای او بی آئی کی انتظامیہ نے اسی دن ایک آفس آرڈر نمبر 77/2014 کے ذریعہ ای او بی آئی میں غیر قانونی طور پر بھرتی شدہ جملہ 358 افسران اور ملازمین کو ای او بی آئی کی ملازمت سے برطرف کردیا تھا ۔ لیکن اس دوران ای او بی آئی کی انتظامیہ بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کو گمراہ کرکے نہ صرف 42 غیر قانونی بھرتی شدہ ملازمین کو بچانے میں کامیاب رہی تھی بلکہ ادارہ کی انتظامیہ کی چشم پوشی اور بعض اعلی افسران کی ملی بھگت کے باعث 358 برطرف افسران ای او بی آئی کی 300 سے زائد سرکاری گاڑیاں، لیپ ٹاپ ، سرکاری ڈاکیومنٹ اور بھاری مالیت کے پٹرول کارڈز وغیرہ لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے ۔

بعد ازاں آنے والی نئی انتظامیہ نے ان سرکاری گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کی بازیابی کے لئے ہیڈ آفس کراچی میں ایک ریکوری سیل قائم کیا تھا ۔ جس نے بڑی محنت اور تندہی سے مفرور افسران، گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کے کوائف اور ان کی مالیت کا ریکارڈ تیار کرکے مفرور افسران کو بازیابی کے نوٹس جاری کئے تھے اور اس سلسلہ میں مزید قانونی کارروائی کے لئے انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کردی تھی ۔

جبکہ اس دوران انتظامیہ نے 2018 میں کار لون اسکیم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ادارہ کے مستقل افسران سے کار لون کی رقم کی یکمشت کٹوتی بھی کرلی تھی ۔ لیکن ای او بی آئی کی انتظامیہ نے پس پردہ مقاصد کے تحت ایک عرصہ تک مفرور افسران سے سینکڑوں گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کی بازیابی کے معاملہ میں کوئی خاص پیش رفت نہیں کی اور بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی جانب سے پنشن فنڈ میں 34 ارب روپے کے میگا لینڈ اسکینڈل کی طرح اس معاملہ کو بھی مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل سرد خانہ میں ڈالے رکھا ۔

بالآخر 2018 گورنمنٹ آڈیٹرز کی جانب ای او بی آئی کے سالانہ آڈٹ کے دوران ان 358 گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کی عدم بازیابی سے متعلق آڈٹ پیرا سامنے آنے کے بعد ای او بی آئی کی انتظامیہ خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور اس نے بورڈ آف ٹرسٹیز کی ہدایت پر بادل ناخواستہ 5 مئی 2019 کو قومی اخبارات میں گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کے نادہندہ افسران کے لئے نوٹس کے نمایاں اشتہارات شائع کرائے اور بعد ازاں اس نوٹس کی مدت گزر جانے کے بعد مرزا اویس سعید احمد ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل لا ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی کی مدعیت میں گاڑیاں اور لیپ ٹاپ لے کر فرار ہونے والے 140 برطرف افسران کے خلاف تھانہ فیروز آباد کراچی میں ایف آئی نمبر 288/2019 آر درج کرائی گئی تھی ۔

اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز نے گاڑیاں اور لیپ ٹاپ لے کر فرار ہونے والے 358 برطرف افسران کے خلاف ان کے متعلقہ شہروں میں ایف آئی آر درج کرانے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن انتظامیہ نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کردیا تھا ۔ 2019 میں درج ایف آئی آر کے بعد بھی ای او بی آئی کی انتظامیہ کی جانب اس معاملہ میں روائتی عدم دلچسپی اور عدم تعاون کے باعث فیروز آباد پولیس آج تک اس کیس کی تفتیش مکمل نہیں کرسکی اور مفرور افسران کے خلاف عدالت میں چالان بھی جمع نہیں کرایا جاسکا جس کے نتیجہ میں 358 برطرف اور مفرور افسران سے ای او بی آئی کی 140 قیمتی سرکاری گاڑیاں اور لیپ ٹاپ تاحال بازیاب نہ کروائے جاسکے جو لاکھوں غریب ملازمین کے پنشن فنڈ کے نگہبان بورڈ آف ٹرسٹیز اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔

اسرار ایوبی کا مزید کہنا ہے گزشتہ دس برسوں کے دوران ادارہ میں تعینات رہنے والے پانچ چیئرمین حضرات نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اہم معاملہ کو فراموش کئے رکھا ہے ۔ حالانکہ سینکڑوں برطرف شدہ افسران کی جانب سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کا غیر قانونی استعمال ملک میں جاری دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں کسی المناک حادثہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔