Live Updates

, نگران حکومت قائم نہیں ہونی چاہیے ،یہ ملک میں شفاف، آزادانہ اور قابل الیکشن کرانے میں کامیاب نہیں ہوئیں، سینیٹر عرفان صدیقی

۔نگرانوں کو الیکشن کی ذمہ داری کے دوران آنے والے موسموں پر نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ذمہ داری پوری ہوتے ہی الگ ہونا چاہیے ق*پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کی نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو

منگل 19 مارچ 2024 22:40

ِ%اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مارچ2024ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نگران حکومت قائم نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ملک میں شفاف، آزادانہ اور قابل الیکشن کرانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ نگرانوں کو الیکشن کی ذمہ داری کے دوران آنے والے موسموں پر نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ذمہ داری پوری ہوتے ہی الگ ہونا چاہیے، وہ کاشت کاری نہ کریں،آنے والے وقتوں کے لئے بیج نہ بوئیں۔

وہ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کررہے تھے۔ کندھ کوٹ کے استاد اللہ رکھیونندوانی کے کچے کے ڈاکو?ں کے ہاتھوں قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ کچے میں اللہ رکھیوننداوانی قتل ہورہے ہیں اور پکے میں خواتین کا پرس چھین کر لے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

عوام کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔کچہ ہو یا پکا دونوں طرف کے حالات ایک ہی جیسے ہیں۔

اگر ریاست یہ بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو پھر بڑے بڑے دعوے نہیں ہونے چاہییں۔ انہوں نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو کو چوالیس سال بعد انصاف ملا لیکن چند سال پہلے کے ٹرائل کے بار ے میںکیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انصاف ہواہی یہ انصاف کا داغ ندامت ہے کیونکہ مجموعی طورپر ہمارا نظام انصاف نہیں دے رہا۔ عوام کا اعتماد نظام انصاف پر متزلزل ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ایک فرد کو نہیں بلکہ سزا پوری قوم کو ملتی ہے۔ حسن اور حسین کے بری ہونے سے پانامہ کا باب بند ہوگیا لیکن پانامہ کے ذریعے قوم کو جہاں لے آئے ہیں ، اس کا ازالہ کیا ہوگا انہوں نے کہاکہ نوازشریف کے ساتھ سپیشل ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے سزا دلوائی گئی، سپیشل ٹریٹمنٹ یہ تھا کہ پہلی بار جے آئی ٹی بنی جس میں فوجی افسر بھی شامل تھے۔

سپیشل ٹریٹمنٹ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا ایک خصوصی بینچ بنایاگیا، اربوں کھربوں لگا کر پوری دنیا میں کارندے بھیجے گئے لیکن کچھ نہ ملا۔ سپیشل ٹریٹمنٹ یہ تھا کہ پہلی اور آخری بار سپریم کورٹ نے نیب کو تین ریفرنس بھجوانے کا حکم دیا جس کاقانون کے تحت اختیار ہی نہیں تھا۔ سپیشل ٹریٹمنٹ یہ حکم تھا کہ چھ ماہ میں نوازشریف کے خلاف فیصلہ دو۔

سپیشل ٹریٹمنٹ یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے جج اعجاز الاحسن کو مانیٹر جج بنادیاگیا۔ سپیشل ٹریٹمنٹ یہ تھا کہ ایک جرنیل جج کے گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ماضی میں ہونے والی زیادتی آج ختم ہوئی ہے تو کہا جارہا ہے کہ سپیشل ٹریٹمنٹ ہورہا ہے۔

ناانصافی کے خاتمے پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے پہاڑ کی چوٹی پر تین سو کنال کا سب سے بڑا محل بنایا ہوا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ بے نامی ہے، کبھی کہتے ہیں کہ فلاں نے دیا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ فلیٹ بیچ کر بنایا ہے ، بات اتنی سی ہے کہ اس وقت آپ پر دست شفقت تھا تو سارے گناہ دھل گئے، ہم پر نہیں تھا تو ہمیں سزا مل گئی۔

عرفان صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہاکہ پی ٹی آئی والے جلسے کے نام پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔جو باتیں یہ سب سے بڑے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کررہے ہیں، وہ جلسے میں بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نہیں کہتا کہ ایسا نہیں ہوا ہوگا جویہ کہہ رہے ہیں۔ بدانتظامیاں بھی ہوتی ہیں، دھاندلیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کے دور میں ڈسکہ کی کہانی پوری قوم نے دیکھی تھی۔

پوری حکومت اس میں ملوث تھی۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ الیکشن میں اگر دھاندلی ہوئی ہے تو پورے پاکستان میں ہوئی۔ کیا خیبرپختون خوا میں امام کعبہ یا حضرت امام ابو حنیفہ نے الیکشن کرائی جہاں آپ جیتے ہیں وہاں تو الیکشن منزہ ومصفہ،پاکیزہ، صاف ستھرے ،آزادانہ منصفانہ تھے لیکن جہاں ہار گئے تو وہاں یہ ہوگیااور وہ ہوگیا۔یہ کوئی منطق نہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کی الیکشن کی تاریخ ہم سب جانتے ہیں۔ پہلے الیکشن میں ملک ٹوٹ گیا۔ دوسرا الیکشن ایک طویل مارشل لائ دے گیا۔ تحریک نظام مصطفی چلی، 2018 میں کیا کچھ نہیں ہوا،لیکن ہم ایوان میں بیٹھے۔ جب آپ کے دوست آپ کو چھوڑ گئے تو تاریخ میں پہلی کامیاب تحریک عدم اعتماد ہوئی۔ یہ لوگ بھی اپنے دکھوں، زخموں اور درد کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھیں۔

ان کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اچھی خاصی آواز ہے۔ اپوزیشن کی توانا آواز بنیں۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں جلسے کے انعقادکے حوالے سے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے ان کے جلسے پر کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے دعوت دیں گے تو میں وہاں آبھی جا?ں گالیکن میری جان کی حفاظت کی ضمانت تب۔ نگران حکومتوں کے قیام کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہاکہ نگران حکومت ہونی ہی نہیں چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منشور بناتے ہوئے میں نے یہ تجویز دی تھی۔پارٹی قائد محمد نوازشریف اور صدر شہباز شریف بھی اجلاس میں موجود تھے۔ نگران حکومتیں نہ بنانے کی تجویز پر اصولی اتفاق کرتے ہوئے کہاگیا تھا کہ جب ہم حکومت میں آئیں گے تو اس پر اقدامات کریں گے۔انہوں نے کہاکہ میں نے سینیٹ میں بھی کہا تھا کہ نگران حکومت بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

کیونکہ نگران حکومت بنانے کا بنیادی مقصد انتخابات کو غیرجانبدارانہ ، آزادانہ اور ، قابل قبول بنانا ہوتا ہے ، یہ مقصد تو پورا نہیں ہوا۔ 2018 میں بھی انگلیاں اٹھیں، 2024 میں بھی انگلیاںاٹھ رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آئین کے مطابق نگران حکومت کا کردار انتہائی محدود اور الیکشن کمشن کے اسسٹنٹ کا ہے۔ انتخابات کے بعد نگران حکومت کے تمام اہلکاروں کو منظر نامے سے ایک طرف ہوجانا چاہیے۔

لیکن اگر وہ آنے والے منظرنامے کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نگران حکومت کے دور میں آپ ایک کھیتی کاشت کرتے رہے ،نگران اسے کھیت نہ بنائیں، کاشت کاری نہ کریں، آنے والے وقتوں کے لئے بیج نہ بوئیں۔ اگر آپ کی نگاہیں آنے والے موسموں پر ہیں توآپ اس کی ضروریات پوری کریں گے جو ناانصافی ہے۔ 19-03-24/--356 #h# محکمہ تعلیم ماضی کی منفی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر سکولوں کو بروقت درسی کتب پہنچانے میں ناکام ہوگئی ہے #/h# [کوئٹہ ( آن لائن)پشتونخوا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جنوبی پشتونخوا کے زونل آرگنائزر لطیف خان کاکڑ اور آرگنائزنگ باڈی کے اراکین نے سکولوں میں درسی کتب کی عدم فراہمی کی مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر اس مسئلے کے حل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم ماضی کی منفی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر سکولوں کو بروقت درسی کتب پہنچانے میں ناکام ہوگئی ہے جسکی وجہ سے تعلیمی تسلسل میں ایک دفعہ پھر رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے اور اس کوتاہی اور خراب کارکردگی کا نوٹس لینے والا کوئی نہیں۔ بیان میں صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم کے اعلی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ تمام دیہی اور شہری علاقوں کو بلا تمیز درسی کتب اور دیگر ضروری اشیا پہنچانے کو یقینی بنا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات