ہمارے محصولات 9 کھرب ہیں، اگر یہ 13 کھرب ہوجائیں تو کشکول توڑ سکتے ہیں

ایف بی آر کی مد میں آدھی رقم ساڑھے 13 سو ارب بھی وصول کر لیں توکوئی معمولی رقم نہیں ہے، وفاق اکیلے کچھ نہیں کر سکتا، صوبوں کے ساتھ مل کر معاشی ترقی کیلئے آگے بڑھنا ہوگا، وزیراعظم شہبازشریف

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 21 مارچ 2024 23:43

ہمارے محصولات 9 کھرب ہیں، اگر یہ 13 کھرب ہوجائیں تو کشکول توڑ سکتے ہیں
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 21 مارچ 2024ء) وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہمارے محصولات 9 کھرب ہیں، اگر یہ 13 کھرب ہوجائیں تو کشکول توڑ سکتے ہیں، ایف بی آر یا کلائنٹس کے کلیمز کی مالیت بھی 2.7 ٹریلین روپے تک ہے، اگر ہم آدھی رقم ساڑھے 13 سو ارب بھی وصول کر لیں توکوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری ہو جاتی ہے، اگر محصولات کی وصولی میں اضافہ ہو گا تو قرضوں میں کمی آ جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت وفاق میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے، صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں بن چکی ہیں، ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا، وفاق اکیلے کچھ نہیں کر سکتا، صوبوں کے ساتھ مل کر معاشی ترقی کیلئے آگے بڑھنا ہو گا، راستے میں دشواریاں اور چیلنجز آئیں گے، مہنگائی کا ایک طوفان ہے، غریب آدمی مہنگائی میں پس گیا ہے، یہ تمام معاملات ہمارے سامنے ہیں۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے کہا کہ بجلی اور گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے، 76 سال سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے، کسی ایک حکومت کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، مل کر ہی ان مسائل کو حل کرنا ہو گا، ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو گی، ہم اپنی منزل تک جلد پہنچ جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت نے ایس آئی ایف سی کے حوالے سے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں، 87 ارب روپے کی بجلی چوری کو بچایا گیا ہے، یہ کام صرف بھرپور عزم کے ساتھ ہی ہو سکتا تھا، ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی ہے، اسی طرح سمگلنگ کی روک تھام کیلئے جو اقدامات کئے گئے ان کا بھی ملک کو بہت فائدہ ہوا ہے، اسی طرح ایگزم بینک کی شروعات ہوئیں، لینڈ مینجمنٹ سسٹم پر پیشرفت ہوئی، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کی ٹرانزیکشن مکمل ہوئی، سرکاری ملکیتی اداروں کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، صرف پی آئی اے کا قرضہ 825 ارب روپے ہو چکا ہے، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور کرپشن پائی جاتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے حوالے سے بہت اچھے فیصلے کئے گئے اور معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے، کویت اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اربوں ڈالر کے معاہدے کئے گئے، ٹائیٹ گیس پالیسی پر بھی پیشرفت ہوئی، برائون فیلڈ ریفائنریز اپ گریڈیشن پالیسی، سیڈ ریفامز پر بھی نگران حکومت نے بہت کام کیا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں جعلی بیج اور ادویات کی فروخت ہوتی تھی ان کی روک تھام کیلئے پالیسیاں بنائی گئیں اور یہ تمام اقدامات ایس آئی ایف سی کے تحت ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جتنے بھی سفراء سے میری ملاقات ہوئی ہے میں نے انہیں کہا ہے کہ ہم نے مزید قرضوں اور رول اوورز میں نہیں پڑنا، ہماری خواہش ہے کہ آپ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اس کیلئے حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہوائی اڈوں کی آئوٹ سورسنگ اور پی آئی اے کی نجکاری پر کافی کام ہوا ہے، یہ سب کچھ اسی لئے ممکن ہوا کہ قومی مفاد کو اولیت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آئندہ بہت کڑوے اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے لیکن ان فیصلوں کا بوجھ ان طبقات پر پڑنا چاہئے جو اس بوجھ کو برداشت کر سکیں، ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور ملک میں اشرافیہ کا کلچر فروغ پاتا رہا اور انہیں ہی مراعات اور سبسڈیز ملتی رہیں اور غریب آدمی کا جو حال ہوا ملک میں بے روزگاری بڑھی اس کی صورتحال سب کے علم میں ہیں، غریب آدمی پہلے ہی مہنگائی میں پس رہا ہے اس کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اس حوالے سے وزیر خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ آئندہ بجٹ ان تمام اہداف کو مدنظر رکھ کر بنایا جائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اپنی انا اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک کو وہ مقام دلانا ہے جس کیلئے لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ نگران دور میں ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور اقدامات پر سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، ان کی کابینہ اور سرکاری افسران کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ ایف بی آر کو ڈیجیٹلائز کریں گے،ہمارا 2023-2024 کا محصولات کا تخمینہ 9 کھرب روپے ہے جبکہ اصل میں محصولات 14ٹریلین روپے تک ہونی چاہئیں، تو 4 کھرب روپیہ ضائع ہورہا ہے، پھر ہمارے کیسزکی مد میں جو رقم ریکور کرنی ہے وہ 2.7 کھرب روپے ہے، اگر آدھی رقم بھی ریکور کرلیں تو ساڑھے 13سوارب روپیہ آجائے گا، پھر سالانہ بجلی چوری 500ا ب ہے۔