اپوزیشن جماعتوں کے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کے لیے دائر درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

بدھ 27 مارچ 2024 23:12

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مارچ2024ء) اپوزیشن جماعتوں کے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کے لیے دائر درخواستوں پر پشاور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت مخصوس نشستوں پر منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی سے حلف لینے کا حکم دے دیا۔قبل ازیں پی پی پی, مسلم لیگ ن, جے یو آئی کی مخصوص نشستوں پر منتخب ممبران سے حلف لینے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد پرمشتمل دو رکنی بنچ نے کی جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کا وکیل سپیکر سے استفسارکیا کہ کیا سپیکر حلف لینے سے انکار کررہا ہی وکیل سپیکر علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے پہلی بار گورنر کا آڈر آتا ہے اپوزیشن لیڈر کے ذریعی, پراپر طریقے سے نہیں آتا۔

(جاری ہے)

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ گورنر خود اسمبلی اجلاس بلاسکتا ہے آپ یہ کہنا چاہتے ہیںگورنر کا آرڈر کسی نے چیلنج کیا ہی وکیل سپیکرنے کہا کہ نہیں کسی نے اس کو چیلنج نہیں کیا۔ 21 مارچ کو سیکرٹری صوبائی اسمبلی نے لیٹر لکھا۔ جسٹس شکیل احمدنے کہا کہ سیکرٹری کے لیٹر کو چھوڑے ہمیں بتا دیں کہ گورنر اسمبلی سیشن سمن کرسکتا ہے یا نہیںوکیل سپیکر نے کہا کہ آرٹیکل 109 میں گورنر کرسکتا ہی, اس کو 105 کے ساتھ پڑھا جائے گااگر گورنر ایسا کرے گا تو پھر تو وزیراعلی بے اختیار ہوگا۔

جسٹس شکیل احمد ن ے کہا کہ کیا آپ ان کو ٹیکنیکل گراونڈ پر آوٹ کرنا چاہتے ہیں۔ وکیل سپیکر نے کہا کہ ہم آوٹ نہیں کرنا چاہتی, اسمبلی اجلاس ابھی ہونہیں سکتا۔ وکیل درخواست گزار عامر جاویڈ ایڈوکیٹ نے کہا کہ چیمبر میں بھی حلف لیا جاسکتا ہے الیکشن کمیشن نے ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے یہ اب ممبر بن گئے ہیں۔ صرف حلف لینا ہی, 2 اپریل کو سینٹ انتخابات ہورہے ہیںجب سیشن کال ہوتی ہے تو سب سے پہلے ممبران حلف لیتے ہیں اور پھر سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا الیکشن ہوتا ہے۔

تھرڈ شیڈول میں پھر درج ہے کہ حلف کیسے لیا جائے گا۔ وکیل درخواست گزارنے کہا کہ جب ممبر سے حلف لیا جاتا ہے تو پھر ان کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ایک مہینے سے درخواست گزاروں کو اپنے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان کی تو اسمبلی میں اکثریت ہے پھر کیو حلف نہیں لے رہے۔ وکیل سپیکرنے کہا کہ بلدیوں کمار کیس میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہاکہ اس وقت دو ایشو تھی, ان میں پروڈکشن آرڈر اور ان کا حلف تھا۔

وکیل سپیکرنے کہا کہ جی بالکل ایسا تھا پھر اس کے بعد توہین عدالت درخواست ہائیکورٹ میں دائر ہوئی۔ اس وقت اسمبلی جاری تھا اور اس میں ان کو حلف لینے کا حکم دیا تھا۔ وکیل درخواست گزارنے کہا کہ حمزہ شہباز شریف سے حلف نہیں لیا جارہا تھا تو اس وقت عدالت نے کہا کہ اگر گورنر نہیں لیتا حلف تو صدر پاکستان حلف لیں۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سوال کیا کہ پھر کس نے وہ حلف لیا۔

صدر نے بھی وزیراعظم شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کیا تھا تو پھر چیئرمین سینٹ نے حلف لیا۔ وکیل درخواست گزارنے کہا کہ پنجاب میں جب وزیراعلی کے الیکشن نہیں ہورہے تھے تو پھر عدالت نے ڈپٹی سپیکر کو حکم دیا کہ الیکشن کرائے۔ سپیکر پرویزالہی اور حمزہ شہباز وزیراعلی کے امیدوار تھی, سپیکر پرویزالہی الیکشن نہیں کررہے تھے۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ حلف برداری کے لئے اسمبلی سیشن کی ضرورت ہے یا نہیں۔

حلف اسمبلی اجلاس میں ہوگا یا چیمبر میں بھی ہوسکتا ہی جسٹس شکیل احمدنے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسمبلی سیشن کے بغیر ہوسکتا ہی, تو کیسے ہوگا۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ گورنر نے جب اجلاس بلایا تو سپیکر, کیبنٹ وزیراعلی نے ان کو کہا تھا۔وکیل درخواست گزار عامر جاوید نے کہا کہ آرٹیکل 109 کہتا ہے کہ گورنر ٹائم ٹو ٹائم اجلاس سمن کرسکتا ہے۔

جس پر جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ صدر اور گورنر اسمبلی اجلاس حکومت کی ایڈوائس کے بغیر طلب نہیں کرسکتا۔ جسٹس شکیل احمدنے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب حکومت میں ہوتا ہے تو رویہ الگ ہوتا ہے اور جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو پھر ان کا الگ رویہ ہوتا ہے۔ جسٹس شکیل احمد کے ریمارکس نے کہا کہ قومی اسمبلی میں آپ لوگ اور صوبائی اسمبلی میں یہ لوگ واویلا مچاتے ہیںآپ لوگوں کو آئین سے کھلواڑ نہیں, آئین کی پاسداری کرنی چاہیئے۔

عدالت نے کہا کہ ممبران کا حلف اسمبلی اجلاس میں ہوتا ہے۔ جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی سے حلف صدر اور گورنر لیتا ہے ان کا حلف اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ گورنر نے اپنی ذمہ داری پوری کی اور 22 کو اجلاس طلب کیا عدالت نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم گورنر, سپیکر یا صوبائی اسمبلی کو ہدایت کرسکتے ہیں اجلاس کے لئے سمن جاری کرے۔

وکیل درخواست گزارنے کہا کہ گورنر کو 248 کے تحت استثنی حاصل ہی, صوبائی اسمبلی کو عدالت کہہ سکتا ہے۔ وکیل سپیکر صوبائی اسمبلی علی عظیم آفریدی ایڈوکیٹ نے کہا کہ سپیکر کا رول نہیں ہے اور یہ ہمارے خلاف ڈائریکشن مانگ رہے ہیں۔ سپیکر تب اجلاس کے لئے سمن جاری کرے گا جب 1/4 ممبران ان کو درخواست کریں۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جب 1/4 ممبران سپیکر کو درخواست نہ کریں سپیکر اجلاس نہیں بلاسکتا۔

وکیل سپیکر اسمبلی نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ممبران کا نوٹیفکیشن ہوگیا ہے ان کا حق ہے کہ ان سے حلف لیا جائے۔ بات آئین اور قانون کی ہے۔ آرٹیکل 109 میں سبجیکٹ ٹو آئین کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ آپ کیسے آرٹیکل 109 کو آئین کے کسی اور آرٹیکل کے تناظر میں پڑھ سکتے ہیں۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمانخیل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 65 کہتا ہیکہ جب ایک ممبر الیکٹ ہوتا ہے تو وہ حلف لے گا اور یہ تھرڈ شیڈول میں ہے کہ اسمبلی سیشن میں ہوگا۔

بلدوکمار اور اسپیکر اسد قیصر کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے اس کو ڈیفائن کیا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جب وزیر اعلی موجود نہ ہو یا پھر اس کے خلاف عدم اعتماد ہو تو تب گورنر اجلاس آرٹیکل 109 کے تحت طلب کر سکتا ہے۔جسٹس عتیق شاہ نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب کیسے آپ اس فیصلے پر انحصار کر رہے ہے جس کو سپریم کورٹ نے بیڈ لا کہا ہی ۔ آپ کی ٹیم کیا کر رہی ہے، سوئی پڑی ہی انہوں نے یہ تک نہیں دیکھا کیسے آپ عدالت کو اس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

میں نے جو کیس ریفرنس دیا اسے واپس لیتا ہوں۔بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کے مخصوص نشستوں کے ارکان اسمبلی سے حلف لینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جسے بعد میں جاری کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان سے حلف لینے کا حکم دیا۔