ارویند کیجریوال کی گرفتاری، امریکہ اور بھارت میں تکرار جاری

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 28 مارچ 2024 12:40

ارویند کیجریوال کی گرفتاری، امریکہ اور بھارت میں تکرار جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2024ء) دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے کنوینر ارویند کیجریوال کو مبینہ بدعنوانی کے معاملے میں گرفتار کرنے کے خلاف درون ملک احتجاج کے ساتھ ساتھ کئی ملکوں نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے کیجریوال کی گرفتاری پر سب سے پہلے جرمنی نے اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا۔

کیا دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کو گرفتار کر لیا جائے گا؟

بھارت کی ’اینٹی کرپشن پارٹی‘ کو کرپشن کے الزامات کا سامنا

ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار رچرڈ واکر کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جرمنی کے دفترخارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ الزامات کا سامنا کرنے والے کسی اور شخص کی طرح ارویند کیجریوال بھی منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ٹرائل کے حق دار ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا تھا "ہم امید کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی اور بنیادی جمہوری اصولوں سے متعلق معیارات اس کیس پر بھی لاگو ہوں گے۔"

بھارت نے اس سے ناراض ہوکر نئی دہلی میں جرمن سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن کو طلب کرکے ان ریمارکس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ نئی دہلی نے جرمنی کے بیان کو "بھارت کے داخلی امور میں صریح مداخلت" قرار دیا تھا۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "ہم ایسے ریمارکس کو اپنے عدالتی عمل میں مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور اس معاملے پر متعصبانہ مفروضہ سب سے زیادہ غیر ضروری ہے۔"

امریکی سفارت کار کی طلبی اور احتجاج

امریکی محکمہ خارجہ نے منگل کو کہا تھا کہ وہ کیجریوال کی گرفتاری کی اطلاعات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور نئی دہلی سے مطالبہ کیا کہ وہ جیل میں بند وزیر اعلیٰ کے لیے ''منصفانہ اور بروقت قانونی عمل'' کو یقینی بنائے۔

امریکی وزارت خارجہ کے بیان سے ناراض بھارت نے نئی دہلی میں امریکہ کی ڈپٹی چیف آف مشن گلوریا بربینا کو وزارت خارجہ میں طلب کرلیا اور اپنے سخت اعتراضات درج کرائے۔

دہلی الیکشن: مودی سرکار کو بڑی شکست کا سامنا

بھارتی وزارت خارجہ نے اس کے بعد ایک بیان میں کہا، ''سفارت کاری میں، ریاستوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے اقتدار اعلیٰ اور اور اندرونی معاملات کا احترام کریں گی۔

اور یہ ذمہ داری ساتھی جمہوریتوں کے معاملے میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں غیر صحتمند مثالیں قائم ہو سکتی ہیں۔''

بھارتی وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا، ''بھارت کا قانونی عمل ایک خود مختار عدلیہ کی بنیاد پر کام کرتا ہے جو بروقت اور غیرجانبدار نتائج دینے کا پابند ہے، اس پر شک وشبہے کا اظہار کرنا نا مناسب ہے۔

''

امریکہ کا اصرار

اپنے ڈپٹی چیف آف مشن کو بھارت کی جانب سے طلب کیے جانے کے چند گھنٹے بعد، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کو ایک بار پھر کہا کہ واشنگٹن منصفانہ، شفاف، بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کہا کہ ''ہم نہیں سوچتے کہ کسی کو اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔''

میتھیو ملر کا کہنا تھا، "ہم دہلی کے وزیر اعلی ارویند کیجریوال کی گرفتاری سمیت ان کارروائیوں پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔

"

ملر نے اپوزیشن کانگریس پارٹی کے بینک کھاتوں کو منجمد کرنے سے متعلق ایک سوال کا بھی جواب دیا۔ انہوں نے کہا، ''ہم کانگریس پارٹی کے ان الزامات سے بھی واقف ہیں کہ ٹیکس حکام نے ان کے کچھ بینک کھاتوں کو اس انداز میں منجمد کر دیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں مؤثر طریقے سے مہم چلانا مشکل ہو جائے گا۔ اور ہم ان مسائل میں سے ہر ایک کے لیے منصفانہ، شفاف اور بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

''

کیجریوال کی گرفتاری کا معاملہ کیا ہے؟

دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے گزشتہ ہفتے گرفتار کیا تھا، جو کہ نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور رکن پارلیمان سنجے سنگھ کے بعد عام آدمی پارٹی کے تیسرے لیڈر تھے جنہیں مبینہ شراب (ایکسائز) پالیسی گھپلے کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا۔

ایکسائز پالیسی کو دہلی میں شراب کے کاروبار میں بہتری لانے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، لیکن لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی جانب سے پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم دینے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا۔

ای ڈی کا ماننا ہے کہ پالیسی سے رشوت کی رقم مبینہ طور پر عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہموں کی فنڈنگ کے لیے استعمال کی گئی۔ اس نے مسٹر کیجریوال کو اس معاملے میں ''سازشی'' بھی کہا ہے۔

عام آدمی پارٹی کی دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات سے عین قبل کیجریوال کی گرفتاری نے اپوزیشن کیمپ کی طرف سے شدید احتجاج کو ہوا دی ہے۔

وفاقی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی تاہم بدعنوانی کے معاملے میں ان رہنماوں کی گرفتاری میں کسی سیاسی مداخلت کی تردید کرتی ہے۔