ججز خط از خود نوٹس کیس؛ سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لیں

آئندہ سماعت سے ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس سنیں گے، چیف جسٹس کے ریمارکس، سماعت 29 اپریل تک ملتوی

Sajid Ali ساجد علی بدھ 3 اپریل 2024 13:52

ججز خط از خود نوٹس کیس؛ سپریم کورٹ نے معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 اپریل 2024ء ) سپریم کورٹ نے ججز خط از خود نوٹس کیس میں معاونت کیلئے تحریری معروضات مانگ لیں اور سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے ججز خط از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر شامل ہیں۔

آج کیس کی پہلی سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ ’ہم نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، ہمیں بھی کیس میں سنا جائے‘، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ’حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طے کرتی ہے، کمیٹی نہ عدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے، ایک آئینی درخواست جب دائر ہوتی ہے تو اخباروں میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی ایک طرح کا پریشر ڈالنے کے مترادف ہے، میں تو کوئی دباؤ نہیں لیتا اور ہمیں اپنے فیصلوں میں دباؤ نہیں لینا چاہیے، عجیب بات ہے کہ وکلاء مطالبہ کرتے ہیں ازخود نوٹس لیں‘، اس پر ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ ’میں نے صرف نشاندہی کی ہے، میں نے اعتزاز احسن کی طرف سے درخواست دائر کی ہے‘۔

(جاری ہے)

سماعت کو آگے بڑھاتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کی جاری کردہ پریس ریلیز سے شروع کریں‘، جس پر اٹارنی جنرل نے پریس ریلیز پڑھی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم نے انتہائی چستی کے ساتھ خط ملتے ہی کام شروع کیا، جیسے ہی خط ملا رمضان میں افطاری کے بعد ہائی کورٹ ججز سے ملاقات کی جس میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک تھے، ہم رمضان کے بعد بھی ملاقات کر سکتے تھے لیکن اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملاقات کی کیوں کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہماری زیرو ٹالرنس پالیسی ہے‘۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’بتائیں فل کورٹ میٹنگ پہلی مرتبہ کب ہوئی، چیف جسٹس پاکستان بننے کے بعد پہلے ہی دن فل کورٹ میٹنگ کی اور اس سے پہلے چار سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی، ادارے کی اہمیت چیف جسٹس پاکستان سے نہیں ہوتی بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے، عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ ہوگا تو میں سب سے پہلے آؤں گا اور باقی ججز بھی میرے ساتھ آئیں گے، اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو پھر وہ صدر سپریم کورٹ بار بن جائے، ہم کسی کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے‘۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم نے وزیراعظم سے ملاقات انتظامی طور پر کی جس میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بھی شریک تھے، ملاقات سپریم کورٹ کے احاطے میں ہوئی، یہ ملاقات چیمبر یا گھر میں نہیں ہوئی، ملاقات میں ایگزیکٹو اور عدلیہ کی آزادی بھی شریک تھی، ہماری اسپیڈ دیکھیں ہم نے 24 گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کی، اگلے ہی دن پھر وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی‘۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آپ کے تحفظات پر وزیراعظم نے مکمل یقین دہانی کرائی تھی، وفاقی حکومت نے کبھی ون مین کمیشن بنانے کا نہیں کہا، تجویز یہ آئی کہ کمیشن کا غیر جانبدار سربراہ ہو، تاثر دیا گیا ایگزیکٹو برانچ انکوائری کر رہی ہے، جنھوں نے باتیں کیں انھوں نے انکوائری ایکٹ 2017 پڑھا ہی نہیں، کمیشن کے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی ہے‘، اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ’بتائیں نام کس نے تجویز کیے؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’دو نام آپ نے تجویز کیے تھے، آپ کی طرف سے ناصر الملک اور تصدق جیلانی کے نام تجویز کیے گئے، کمیشن کو سول اور فوجداری اختیارات حاصل ہوں گے، کابینہ میٹنگ کے بعد تصدق جیلانی صاحب کا نام فائنل ہوا‘۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ زمانے گئے جب کیس فکس کرنے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس تھا، اب کیسز فکس کرنے کا اختیار کمیٹی کے پاس ہے، جو وکیل کہہ رہے ہیں کہ ازخود نوٹس لیں وہ وکالت چھوڑ دیں، اب وہ زمانے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اب کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، کمیٹی نہ عدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے اور نہ عدالت کمیٹی کا کیوں کہ اب وہ زمانہ گیا جب چیمبر میں ملاقات کر کے کیس فکس کرایا جاتا تھا، آئینی درخواست جب آئے تو اخباروں میں چھپ جاتی ہے، میں تو کبھی کسی کے پریشر میں نہیں آتا، عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیے، ہمیں دباؤ لیکر فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہر ایک کو پتا ہے کیا ہو رہا ہے لیکن ہر کوئی دکھاوا کر رہا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے، ہمیں یہ دکھاوا نہیں کرنا چاہیے کہ کچھ نہیں ہو رہا، اخبار میں پڑھا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے آرڈر کے بعد ایم پی او کے ذریعے اُس آرڈر کو Frustrate کیا گیا ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ نہیں ہو رہا‘، اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’چیزیں ہو رہی ہیں اور ہم سر ریت میں رکھے نہیں بیٹھ سکتے، چیزیں بہت پہلے سے ہو رہی ہیں لیکن اب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے خط لکھ کر بتا دیا ہے‘۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججز کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے‘، اس پر ،جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ ’خط کو ہمیں ایک موقع سمجھ کر دیکھنا ہوگا، عدلیہ کی آزادی کے بغیر کچھ بھی نہیں، ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو‘، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہوگا‘۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے وضاحت دی کہ ’آج جتنے ججز یہاں موجود تھے ان سب کو بینچ میں شامل کیا،ممکن ہے کہ کیس میں آگے فل کورٹ تشکیل دے دیں، یہ ہمار حکم سمجھ لیں کہ کسی قسم کا کوئی دباؤقبول نہیں ہوگا، اس وقت جو ججز دیگر رجسٹریوں میں ہیں وہ وہاں عید تک ہیں، ابھی فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی کیون کہ کچھ ججزلاہور اور کچھ کراچی میں تھے، ممکن ہے آئندہ سماعت پرفل کورٹ بنا دیں اور ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر یں گے‘، بعد ازاں سپریم کورٹ نے معاونت کے لیے تحریری معروضات مانگ لیں اور کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔