وفاقی وزارت داخلہ نے سوشل فورم” ایکس“ کی بندش کے خلاف درخواست پر رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرا دی

درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق سلب نہیں ہوا اس لیے درخواست خارج کی جائے، ایکس کی بندش کے خلاف درخواست قانون و حقائق کے منافی ہے اور قابل سماعت نہیں.وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مندرجات

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 17 اپریل 2024 15:36

وفاقی وزارت داخلہ نے سوشل فورم” ایکس“ کی بندش کے خلاف درخواست پر رپورٹ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 اپریل۔2024 ) وفاقی وزارت داخلہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس کی بندش کے خلاف درخواست پر رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا کوئی بنیادی حق سلب نہیں ہوا اس لیے درخواست خارج کی جائے، ایکس کی بندش کے خلاف درخواست قانون و حقائق کے منافی ہے اور قابل سماعت نہیں.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکس پاکستان میں رجسٹرڈ ہے نہ پاکستانی قوانین کی پاسداری کے معاہدے کا شراکت دار ہے، ایکس نے پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہیں کی، حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہ ہونے پر ایکس پر پابندی لگانا ضروری تھا.

(جاری ہے)

وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے ایکس سے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے اکاﺅنٹ بین کی درخواست کی، ایکس حکام نے سائبر کرائم ونگ کی درخواست کو نظر انداز کیا اور جواب تک نہ دیا، عدم تعاون ایکس کےخلاف ریگولیٹری اقدامات بشمول عارضی بندش کا جواز ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ایکس کی عارضی بندش کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، انٹیلیجنس ایجنسیوں کی درخواست پر وزارت داخلہ نے ایکس کی بندش کے احکامات دیے، ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا. وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندانہ نظریات اور جھوٹی معلومات کی ترسیل کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جارہا ہے، چند شرپسند عناصر کی جانب سے امن و امان کو نقصان پہنچانے کیلئے ایکس کو استعمال کیا جارہا ہے، عدم استحکام کو فروغ دینے کیلئے ایکس کو بطور آلہ استعمال کیا جارہا ہے.

وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکس کی بندش کا مقصد آزادی اظہار رائے یا معلومات تک رسائی پر قدغن لگانا نہیں، ایکس کی بندش کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا قانون کے مطابق ذمہ دارانہ استعمال ہے، وزارت داخلہ پاکستان کے شہریوں کی محافظ اور قومی استحکام کی ذمہ دار ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر بھی بین لگایا گیا تھا، ٹک ٹاک کے پاکستانی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کے بعد بین ختم کردیا گیا تھا.

وزارت داخلہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکس کی بندش آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف وزری نہیں ہے، سیکیورٹی وجوہات پر دنیا بھر میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی عائد کی جاتی ہے، ایکس کی بندش کے خلاف درخواست کو خارج کیا جائے. واضح رہے کہ آج ہی سندھ ہائی کورٹ نے ایک ہفتے میں سوشل میڈیا ویب سائٹ” ایکس“سابقہ ٹوئٹر کی بندش سے متعلق جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے “ایکس “اور انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواست کی سماعت چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ عقیل احمد عباسی اور جسٹس عبدالمبین لاکھو نے کی.

سماعت کے دوران درخواست گزار جبران ناصر کے وکیل عبدالمعز جعفری ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزارت داخلہ نے تسلیم کرلیا ہے کہ” ایکس “کی بندش کے لیے انہوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو خط لکھا تھا تاہم اس کی کوئی وجوہات نہیں بتائی گئی نہ ہی اس سے متعلق قانون اور شرائط بتائی گئی ہیں. کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ کس وجہ سے” ایکس“ بند کیا گیا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ضیا مخدوم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ کل تو“ ایکس“ چل رہا تھا چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج بھی چل رہا ہے یا نہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں ہدایات لے لیتا ہوں کہ” ایکس“ چل رہا ہے یا نہیںوکیل عبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ 22 فروری کے عدالتی احکامات کے باوجود” ایکس“ کی بندش توہین عدالت ہے، بالآخر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ”ایکس“ بند کیا گی جس دن کمشنر راولپنڈی نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی اس دن کے بعد سے ہی” ایکس“ بند ہے کیونکہ میڈیا کو کنٹرول کرلیا گیا ہے لیکن ایکس پر تبصرے ہوتے ہیں.

بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی ضیا مخدوم ایڈووکیٹ نے ایکس کی بندش سے متعلق وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن پڑھ کر سنادیاچیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں کہیں نہیں ہے کہ حساس اداروں کی رپورٹس پر وزارت داخلہ کارروائی کرے، کچھ لوگ سوچ رہے ہیں جو کام وہ کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے، اتنے طاقتور ہیں کہ ملک چلارہے ہیں مگر چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بند کرنے سے کیا مل رہا ہے؟ پوری دنیا ہم پر ہنستی ہوگی.

وکیل درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ 8 فروری کو موبائل فون سروس اسی لیے بند کردی گئی کہ کوئی دھماکا نا ہو جائے، درخواست گزار جبران ناصر نے کہا کہ ایکس یا سوشل میڈیا استعمال کرنے سے دھماکے نہیں ہوتے جسٹس عبدالمبین لاکھو نے ریمارکس دیے کہ ایکس استعمال کرنے سے ورچوئل دھماکے نہیں ہوتے کیا ؟. چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں ایکس پر پابندی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا عدالت نے ایک ہفتے میں پی ٹی اے کو ایکس کی بندش کی معقول وجہ بیان کرتے ہوئے جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی ہے عدالت نے حکم دیا کہ 20 مارچ کوعدالت میں جمع کرائے گئے جواب کا ازسر نو جائزہ لیا جائے بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے سماعت 9 مئی تک ملتوی کردی.