غ*شہدائے بالا کوٹ نے اپنے خون سے مسلمانان برصغیر کو حریت کا پیغام دیا : مقررین

ھ*لاہور میں شہدائے بالا کوٹ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کا اہتمام

پیر 6 مئی 2024 17:30

Sلاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 06 مئی2024ء) سید احمد شہیدؒ نے حق و صداقت کا علم بلند کیا ۔ شہدائے بالا کوٹ نے اپنے خون سے مسلمانان برصغیر کو حریت کا پیغام دیا ۔سید احمد شہیدؒ و دیگر مشاہیرتحریک آزادی کی قربانیوں کا نتیجہ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔ 6مئی 1831ء کو تاریخی معرکہ بالاکوٹ کے دوران سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیلؒ ؒسکھوں کیخلاف لڑتے ہوئے سینکڑوں جانثاروں کے ہمراہ جام شہادت نوش کر گئے لیکن آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

آپ ہندوستان کے اندر اسلامی حکومت کی بحالی اور شریعت محمدیؐ کا نفاذ چاہتے تھے اور اس کیلئے آپ نے عملی جدوجہد کی۔ ان خیالات کااظہارصدر نظریہٴ پاکستان فورم آزاد کشمیر مولانا محمد شفیع جوش نے ایوان قائداعظم ، لاہور میں شہدائے بالا کوٹ کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منعقدہ خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

اس لیکچر کا اہتمام ادارہٴ نظریہٴ پاکستان نے کیا تھا۔

مولانا محمد شفیع جوش نے کہا کہ اٹھارویں صدی عیسوی کا نصف آخر مسلمانان ہند کیلئے بڑے ابتلاء کا زمانہ تھا۔ مغلیہ سلطنت تیزی سے زوال کی طرف لڑھک رہی تھی۔ برصغیر کی حکومت چھن جانے سے مسلمانوں کی حالت ابتر ہو رہی تھی ۔ رنجیت سنگھ کی حکومت نے پنجاب اور سرحد کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی، یہاں تک کہ لاہور کی شاہی مسجد پر سکھوں کا قبضہ تھا۔

مسجد کے حجروں میں سکھ فوجی رہتے تھے اور مسجد کے صحن میں گھوڑے باندھے جاتے تھے۔ غرض پوری سکھ ریاست میں مسلمانوں کے جان ومال محفوظ نہ تھے۔ سید احمد شہید اور ان کے مجاہدین جس سکھ ریاست کے خلاف جہاد کر رہے تھے، وہ مغل حکومت کے خلاف سکھوں کی ایک صدی پر محیط دہشت گردی اور چھاپہ مار سرگرمیوں کے نتیجے میں 1799ء میں قائم ہوئی تھی۔سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ نے مسلمانوں کو آزادی دلوانے کیلئے تحریک کا آغاز کیا۔

1829ء میں جب پشاور سے اٹک اور امب تک سید احمد شہید کی اسلامی ریاست قائم ہو گئی تو سکھوں پر اس قدر رعب چھا گیا کہ وہ اٹک پار کا پورا علاقہ سید صاحب کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو گئے مگر آپ نے انکی یہ مصالحانہ پیشکش اس بناء پر قبول نہ کی کہ حقیقی مقصد کوئی علاقہ یا جاگیر لینا نہ تھا بلکہ پورے پنجاب، کشمیر اور سارے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بحالی اور شرعی نظام کا اجرا مقصود تھا۔

ہزارہ، مظفر آباد کے خوانین بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار تھے، چنانچہ سید احمد اور ان کے ساتھی دشوار گزار پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے دریائے اباسین (سندھ) عبور کر کے راج دواری (بالائی ہزارہ) میں وارد ہوئے اور غازی بو اور بالا کوٹ میں جہادی مرکز قائم کرتے ہوئے مظفر آباد تک پہنچ گئے۔ تحریک جہاد کے معاون خوانین کو سکھوں کی دست برد سے بچانے کیلئے فیصلہ کن جنگ ضروری سمجھی گئی اس غرض کیلئے مجاہدین کچھ عرصے کیلئے بالا کوٹ میں مقیم ہو گئے۔

6 مئی 1831ء کو راہ حق کے مجاہدین اور سکھوں میں بالاکوٹ اور مٹی کوٹ کے درمیانی میدان میں خونریز لڑائی شروع ہوئی۔ یہ لڑائی تقریباً 2 گھنٹے جاری رہی، سکھوں کی تعداد غازیوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ سینکڑوں سکھ مارے گئے اور تقریباً 300 غازیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں خود سید احمدؒ اور شاہ اسماعیلؒ بھی شامل تھے۔انہوں نے اپنی جان دیدی لیکن آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیااور مسلمانوں کو آزادی کا درس دیا۔