ملک کے دفاعی، سفارتی اور اقتصادی اہداف و مفادات پرتمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے،ڈاکٹر قیصر بنگالی

جمعہ 12 جولائی 2024 21:42

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جولائی2024ء) معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہاکہ ملک کے دفاعی، سفارتی اور اقتصادی اہداف و مفادات پرتمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہی قدر مشترک ہے کہ وہاں ملکی معیشت اور ترقی میں تسلسل کے حوالے سے قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ بھلے حکومتیں آتی جاتی رہیں ، پالیسیوں میں تسلسل قایم رہتا ہے۔

وہ بہ طور مہمان مقرر گزشتہ روز ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں منعقدہ ہمدرد شوریٰ کراچی کے ماہانہ اجلاس بہ عنوان ’’بجٹ 2024-2025 کیا تمام شعبوں سے انصاف کیا گیا ‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔اجلاس کی صدارت اسپیکر جنرل (ر) معین الدین حیدر نے فرمائی۔ ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد بھی اجلاس میں شریک ہوئیں۔

(جاری ہے)

اپنے خطاب کے دوران ڈاکٹر قیصر بنگالی نے مزید کہاکہ1977 سے پہلے ملکی ترقی کے حوالے سے قومی اتفاق رائے موجود تھا۔

لیکن بعد میں پاکستان کی غلط سمت طے کردی گئی۔ پاکستان کو چند طبقات کے مفادات کی خاطر چلایاجاتا رہا، جس کے منفی ثمرات آج ہم سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ تجارتی اوربجٹ خسارے ہیں۔ غیر ضروری درآمدات کو کم کرکیاور برآمدات کو بڑھاکر ہی ہم اس مسئلے سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ اخراجات کو کم کرنے کے لیے اوربرآمدات کو بڑھانے کیلیے طویل مدتی پالیسی کا نفاذ اور مفصل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

حالیہ بجٹ میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے کوئی مراعات نہیں رکھی گئی ہیں۔ اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق ملک کے تمام شعبے زوال پذیر ہیں۔ ملکی معیشت منجمد ہے جس کی وجہ مینوفیکچرنگ صنعت کا فروغ نہ پانا ہے۔ انڈسٹری معیشت کا انجن ہوتی ہے۔ بجٹ میں 400 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے اس پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

البتہ نج کاری کے ذریعے فنڈز اکھٹا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشرف دور میں بھی بڑے پیمانے پر نج کاری کی گئی تھی جو خدمات (سروسز) کے شعبوںمیں ہوئی۔ مالیاتی ادارے سمیت کئی اداروں کو بیچا گیا۔لیکن بعد ازاں سرمایہ کار ہونے والی آمدنی کو ملک سے باہر بھیجتے رہے، جس کی وجہ سے ہمیں منفی ترسیلات کا سامنا کرنا پڑا۔اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سی ایسی وفاقی وزارتوں کو صوبوں میں منتقل کرنا تھا جو غیر اہم ہیں۔

لیکن وہ وزارتیں اب بھی وفاق میں موجود ہیں جن کی سول ایڈمنسٹریشن قومی خزانے پر بوجھ ہے۔ اراکین شوریٰ ظفر اقبال، کموڈور(ر)سدید انور ملک، سینیٹر عبدالحسیب خان، انجینئر ابن الحسن، کرنل(ر)مختار احمد بٹ، ڈاکٹر امجد جعفری، پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد اور عامر طاسین کا کہنا تھا کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ تیس ہزار آمدنی والا بھی پیٹرول کی اٴْتنی قیمت ادا کررہا ہے جتنی تیس لاکھ ماہانہ تنخواہ لینے والا۔

بجلی، پیٹرول اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا تعین خریدار کی آمدنی کے حساب سے ہونا چاہیے، تاکہ غریب طبقے پر کم سے کم بوجھ ہو۔ سبسڈی بھی اسی مد میں دی جاتی ہے کہ قیمتوں کے فرق کو حکومت پورا کرتی ہے تاکہ پروڈیوسر اور مینوفیکچرر کی آمدن متاثر نہ ہو اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں کی قوت خرید کے مطابق اشیاء دستیاب ہوں۔ موجودہ حالات ایک ایسی ہمہ گیر کثیر الجہتی معاشی و اقتصادی پالیسی کے متقاضی ہیں کہ جس میں اس اہم مسئلہ کابھی تدارک کیا جائے۔

ہر سیکٹر میں مفاد پرستوں نے ملی گٹھ جوڑ سے اپنی اٴْجارہ داری قائم کرلی ہے۔ یہی لوگ اقتدار کے ایوانوں میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ پورا نظام چند بااثر لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ریاست کے لیے صنعت کار کا بنیادی کردار روزگار پیدا کرنا ہے۔اسی لیے حکومت صنعت کاروں کو مراعات دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ روزگار پیدا کریں۔

لیکن بدقسمتی سے قوم میں انٹر پرینیور شپ کی صلاحیت کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔اس لیے ملک میں ٹیکنالوجی پر مبنی اسٹارٹ اپس نہیں اٴْبھر رہے ہیںاور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہورہے۔ بجٹ میں ایسے طبقوں کو نوازنا جن کا ملکی برآمدات میں کوئی حصہ نہیں، ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہربرسرروزگار پاکستانی پرانکم ٹیکس واجب الادا ہونا چاہیے بھلے وہ کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دے رہا ہو۔

جب تک یہ قانون سازی نہیں ہوگی، ملکی ٹیکس نیٹ میں اضافہ ممکن نہیں۔ نان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہیے۔ عام لوگوں کے لیے انکم ٹیکس کی ادائی کا طریق کار نہایت سہل ہونا چاہیے۔ کیش اکانومی کو کم کرنے کے لیے پیسے کی الیکٹرانک منتقلی کو تیزی سے فروغ دینا ہوگا۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر افراط زر کی بڑی وجہ ہے۔ قیاس آرائیوں کیذریعے پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوش رٴْبا اضافہ کیا جاتا ہے۔ جو پیسا صنعتوں میں لگنا چاہیے تھا وہ پراپرٹی منصوبوں میں لگا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی عالمی سیاست کے زیر اثر ہیں، اور عالمی طاقتوں کی ایما ء پر فیصلے کرتے ہیں۔#