جنگوں کے دوران جنسی تشدد میں 50 فیصد اضافہ، یو این ایچ سی آر

یو این جمعہ 29 نومبر 2024 23:30

جنگوں کے دوران جنسی تشدد میں 50 فیصد اضافہ، یو این ایچ سی آر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 نومبر 2024ء) دنیا بھر میں 6 کروڑ سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں صنفی بنیاد پر تشدد (جی بی وی) کے باعث بے ریاستی حیثیت میں زندگی گزار رہی ہیں یا انہیں نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے جبکہ انہیں ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے مالی وسائل کا شدید فقدان ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس جنگوں کے دوران جنسی تشدد کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں 95 فیصد متاثرین خواتین اور لڑکیاں تھیں۔

Tweet URL

اس مسئلے پر ادارے کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے بہت سے واقعات سامنے نہیں آتے اس لیے متاثرین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انصاف تک عدم رسائی

'یو این ایچ سی آر' کی ترجمان شابیہ منٹو نے رپورٹ کے اجرا پر جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ بہت سے دور دراز علاقوں میں انسانی امداد پہنچانا مشکل ہوتا ہے یا اس مقصد کے لیے بہت کم وسائل اور مدد میسر ہوتی ہے۔ انصاف تک رسائی بھی محدود ہے اور متاثرین کو قانونی کارروائی کی صورت میں انتقام اور سماجی طور پر الگ تھلگ ہو جانے کا خدشہ درپیش رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلح تنازعات کا شکار علاقوں میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو متاثرین کی زبانی وحشیانہ تشدد، ایذا رسانی، جنسی استحصال اور جنسی تشدد کے حوالے سے ہولناک واقعات سننے کو ملتے ہیں اور ایسے افعال کو جنگی ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، افریقہ کے ملک جمہوریہ کانگو میں جاری تشدد اور بدترین صورت اختیار کرتے عدم تحفظ کے حالات میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی زیادتی ایک عام جرم بن گیا ہے۔

رواں سال ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد میں اضافہ ہوا اور اس میں جنسی زیادتی کے واقعات نمایاں تھے۔

انہوں نے بتایا کہ چاڈ میں سوڈان کی پناہ گزین خواتین نے بھی اپنے ساتھ جنسی زیادتی کے بارے میں اطلاعات دی ہیں۔ یہ خواتین اپنے ملک میں جاری جنگ سے جان بچا کر چاڈ آئی ہیں۔ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف پابندیوں اور گھریلو تشدد کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بدترین ہوتے معاشی حالات کے باعث ان کی ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

نقل مکانی اور جنسی استحصال

بحیرہ روم کے خطے کی جانب نقل مکانی کرنے والی پناہ گزین اور تارک وطن خواتین نے بتایا ہے کہ انہیں ہجرت کے راستوں پر جنسی تشدد و استحصال، غلامانہ سلوک اور انسانی سمگلنگ جیسے جرائم کا سامنا رہا۔ امدادی اداروں کے مطابق، ایسی 90 فیصد خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے والے جنسی تشدد کے متاثرین کو وہاں بھی صنفی بنیاد پر تشدد کے خطرے اور خدمات تک رسائی میں تاخیر کے خدشے کا سامنا رہتا ہے۔

شابیہ منٹو کا کہنا ہے کہ مسلح تنازعات کے دوران ہونے والے جنسی تشدد کے علاوہ نقل مکانی پر مجبور خواتین اور لڑکیوں کو اپنے مرد ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ اندازے کے مطابق، بعض مخصوص علاقوں میں ان خواتین کے لیے یہ خطرہ دیگر خواتین اور لڑکیوں کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ ہے۔

جسمانی معذوری کا شکار، غریب علاقوں میں رہنے والی یا متنوع جنسی میلان، شناخت، جنسی اظہار یا خصوصیات رکھنے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے بھی یہ خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔

امدادی وسائل کی قلت

شابیہ منٹو نے کہا ہے کہ جبری نقل مکانی اور جنگوں سے متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد سے تحفظ دینے کے بروقت اور موثر اقدامات ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں لیکن اس مقصد کے لیے درکار مالی وسائل کی شدید قلت ہے۔

مثال کے طور پر، جمہوریہ کانگو، افغانستان، سوڈان، یوکرین، جنوبی سوڈان اور شام میں پناہ گزینوں کی امدادی ضروریات کے حوالے سے بنائے گئے چھ بڑے منصوبوں میں اس مسئلے سے تحفظ کے لیے درکار 23 کروڑ 60 لاکھ ڈالر میں سے اب تک 28 فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں۔

ادرے کو خدشہ ہے کہ مناسب مقدار میں مالی وسائل کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو جبری نقل مکانی پر مجبور لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو آئندہ برس اہم خدمات تک رسائی نہیں رہے گی۔

'یو این ایچ سی آر' صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 روزہ مہم کے دوران اس مسئلے کو خاص طور پر اجاگر کر رہا ہے۔ 25 نومبر سے شروع ہونے والی یہ مہم 10 دسمبر تک جاری رہے گی۔