اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) ماضی کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اور ان کا استعمال طبقاتی معاشرے میں علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی قوم عروج کے بعد زوال کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ اپنے ماضی کو سیاسی نظریات پر تشکیل دیتی ہے۔ ماضی کو شاندار بنانے کے لیے فتوحات کا ذکر ہوتا ہے۔ جن میں دشمنوں کو شکست دی گئی اور ان کے مالِ غنیمت کو لوٹ کر مفتوحہ لوگوں کو غلام بنایا گیا۔
جب تاریخ کو فتوحات اور جنگوں کی بنیاد پر لکھا جاتا ہے تو ان کے ذریعے اشرافیہ لوگوں میں فخر کے جذبات کو پیدا کرتی ہے لیکن اگر تاریخ کو ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو فاتح اور حملہ آور ڈاکوؤں کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کے مال و دولت کو طاقت کے ذریعے لوٹتے ہیں۔
(جاری ہے)
تاریخ میں فاتحین کو عظیم بنانا انسانیت کے ساتھ ایک مذاق ہے کیونکہ یہ لوگوں کا قتل عام کرکے فاتح بنتے ہیں۔
اس لیے یہ تاریخ کے مجرم ہیں۔ اس کی ایک مثال اسکندر کی فتوحات ہیں۔ یونان سے نکل کر اس نے ایران، مصر، افغانستان اور ہندوستان میں لوگوں کا قتل عام کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے جرائم پر تنقید کرنے کے بجائے حکمران خود اسکندر بننا چاہتے تھے۔ جولیس سیزر اور علاؤ الدین خلجی ان حکمرانوں میں سے تھے جو اسکندر کے نقشے قدم پر چلنا چاہتے تھے۔اکثر قوموں میں ایسی اقلیتیں ہیں جن کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ ماضی۔ جب مفتوحہ لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھا تو ان کو اپنے خاندان معاشرے کلچر سے علیحدہ کرکے مختلف خریداروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ ان کے مالک بدلتے رہتے تھے اور ان کی حیثیت انسان کے بجائے بے جان اشیاء کی طرح ہو جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے لیے انہیں اپنے مالکوں کا وفادار ہونا پڑتا تھا۔
جب امریکہ اور کیریبیئن جزائر میں افریقی غلاموں کو لے جایا گیا تو یہ نہ صرف اپنے وطن سے محروم ہوئے بلکہ ان کے مالکوں نے انہیں نئے نام دیئے۔ ان کے مذہب کو تبدیل کیا اور ان سے محنت و مشقت کرا کے اس سے معاشی فوائد حاصل کیے۔ اگرچہ افریقی غلاموں نے اپنی آزادی کے لیے کچھ بغاوتیں ضرور کیں مگر انہیں سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ 1791 کی فرانسیسی کالونی سینٹ ڈومینگو میں افریقی غلاموں نے بغاوت کر کے آزادی حاصل کی۔مسلمان معاشرے میں جب سولہویں صدی میں تین بڑی سلطنتوں کا زوال شروع ہوا تو سترہ سو عیسوی میں صفوی خاندان کا خاتمہ ہوا۔ مغل خاندان زوال پذیر ہوا اور عثمانی سلطنت نے اپنی طاقت کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا۔ ان سلطنتوں کے زوال نے مسلمان معاشرے کے ذہن پر گہرے اثرات ڈالے۔ مایوسی اور ناامیدی کے عالم میں ان میں بدلتے ہوئے حالات سے مقابلے کی ہمت نہ تھی اس لیے نئے خیالات اور افکار کی جگہ انہوں نے ماضی کو واپس لا کر اس میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہا۔
آج تک مسلم معاشرہ اسی ماضی کی تلاش میں ہے جسے شاعروں، ناول نگاروں اور تاریخ دانوں نے تشکیل دیا ہے۔ موجودہ دور میں یہی شاندار ماضی ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ہندوستان کے ہندو معاشرے میں تاریخ اور ماضی پر اعلیٰ ذاتوں کی اجارہ داری ہے۔ جب کہ اچھوت یا دلت ذات کے لوگ نہ تو اپنی تاریخ رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی ماضی ہے۔ اگر ان میں ماضی کی کچھ یادیں نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں تو وہ انتہائی تلخ اور ناخوشگوار ہیں۔
کیونکہ صدیوں سے ہندو معاشرے میں ان کی حیثیت غلاموں سے بھی بدتر تھی۔ ماضی ان کے لیے آج بھی ایک عذاب ہے کیونکہ اس میں نہ ان کی عزت تھی نہ وقار۔ برطانوی دور حکومت میں ان کو پہلی مرتبہ اپنی ذات کی شناخت کا علم ہوا۔ انہیں اپنی شناخت کے لیے نئے سرے سے ماضی کو تشکیل دینا ہو گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔