’’جہاں اور بھی ہیں - بییونڈ دی بلیو‘‘، پاکستان کی پہلی سائنس فکشن ٹیلی فلم

DW ڈی ڈبلیو اتوار 13 جولائی 2025 12:00

’’جہاں اور بھی ہیں - بییونڈ دی بلیو‘‘، پاکستان کی پہلی سائنس فکشن ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 جولائی 2025ء) پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری ایک طویل عرصے سے مخصوص موضوعات کے گرد گھوم رہی ہیں۔ یہاں بننے والی فلموں، ڈراموں یا ٹیلی فلمز کا واحد مقصد صرف تفریح اور انٹر ٹینمنٹ ہوتا تھا۔ مگر اب کچھ عرصے سے ان ٹرینڈ زمیں تبدیلی آ رہی ہے۔ دنیا بھر کی طرح اب پاکستان میں بھی فلموں اور ڈراموں کو تعلیم اور آگاہی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں

’دنیا فلموں کے ذریعے پاکستانی کہانیاں سننا چاہتی ہے‘

ایسی ہی ایک کوشش انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنسز اسلام آباد کے ماہرین نے بھی کی ہے۔ ''جہاں اور بھی ہیں‘‘ اسپیس سائنسز تھیم کے ساتھ پاکستان کی پہلی ٹیلی فلم ہے۔

(جاری ہے)

یہ کلائیمیٹ چینج وارننگ دینے کے ساتھ جدید سٹیلائٹ ٹیکنالو جی کی مدد سے ان چیلنجز سے نمٹنےکے حل بھی دکھاتی ہے۔

اسے پانچ جون 2025ء کو ماحولیات کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان ٹیلی وژن پر ریلیز کیا گیا تھا۔ یہ ٹیلی فلم موضوع، اسکرین پلے، اور ڈائریکشن ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ اس کا سکرین پلے سلینا خان نے تحریر کیا ہے جبکہ ڈائریکشن سرمد چیمہ کی ہے۔

اس پراجیکٹ کو منسٹری آف پلاننگ، ڈیویلپمنٹ، اینڈ سپیشل انیشیٹوز، ایچ ای سی پاکستان، بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی، لاک ڈاؤن پراڈکشن اور گلوبل کلائی میٹ امپیکٹ سٹڈیز سینٹر نے سپانسر کیا ہے۔

اس اشتراک کا مقصد جدید سپیس اور سٹیلائٹ ٹیکنالوجی سے متعلق آگاہی پھیلانا اور کلائیمیٹ چینج کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ان کی اہمیت کو جاگر کرنا ہے۔

ٹیلی فلم کا مرکز کردار، ایک خاتون سائنسدان

اس ٹیلی فلم آئی میں دکھایا گیا ہے کہ خلائی سائنس صرف ایلیٹ مشنز خلا میں بھیجنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ اسے ماحولیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاریوں کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

فلم کا مرکزی کردار خاتون کلائیمیٹ سائنسدان ڈاکٹر زینب ہیں جو ایک پاکستانی اسپیس ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں تدریس و تحقیق سے وابستہ ہیں۔ یہ کردار معروف اداکارہ آمنہ الیاس نے ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر زینب کا کردار مڈل کلاس پاکستانی لڑکیوں کے لیے ایک زبردست موٹیویشن بھی ہے۔ ڈاکٹر زینب خاندان کی مخالفت کا سامنا کر کے اعلی تعلیم حاصل کرتی اور ایک منفرد فیلڈ میں کیریئر بناتی دکھائی گئی ہیں۔

ٹیلی فلم بنانے کا بنیادی مقصد کیا تھا؟

فلم کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ڈاکٹر نجم عباس ہیں جونیشنل سینٹر آف جی آئی ایس اینڈ اسپیس ایپلیکیشنز اسلام آباد کے چیئرمین ہیں۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پاکستانی سینما میں سائنس فکشن کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی: ''جہاں اور بھی ہیں کے ساتھ ہماری ٹیم نے نئے ٹرینڈز متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔

‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس ٹیلی فلم کا مقصد آگاہی اور سائنس کمیونیکیشن ہے۔ اس کے ٹارگٹ آڈیئنس بالخصوص نوجوان ہیں، اس لیے اس کا دورانیہ بھی صرف 35 منٹ رکھا گیا ہے تاکہ طلباء اور تعلیمی ادارے اسے آگاہی مہمات کے لیے بھی استعمال کر سکیں۔

ڈاکٹر نجم عباس بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس طرح کے سائنس فکشن بیسڈ پراجیکٹ پر کام کرنا آسان نہیں تھا: ''مگر ہمارا عزم تھا کہ کچھ نیا کر کے دکھانا ہے۔

گورنمنٹ کی طرف سے فنڈنگ سے ہمیں بہت حوصلہ ہوا مگر ایک اور بڑا چیلنج اسکرین پلے تھا۔‘‘

ڈاکٹر نجم عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس ٹیلی فلم کی ریلیز کو ابھی صرف ایک ماہ ہوا ہے لیکن یہ تعلیمی اداروں اور پالیسی سازوں میں زبردست پزیرائی حاصل کر چکی ہے: ''کچھ جامعات نےا سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اپنی آگاہی کمپین میں بھی شامل کیا ہے۔‘‘

یہ ٹیلی فلم نومبر 2025ء میں اسلام آباد میں ہونے وا لی انٹرنیشنل کانفرنس آن ایپلیکیشنز آف اسپیس سائنسز میں بھی دکھائی جائے گی۔