انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں ”پاکستان اینڈ ایوولنگ گلوبل آرڈر“ کے موضوع پر تقریب کا انعقاد

بدھ 4 دسمبر 2024 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 دسمبر2024ء) انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز، اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) نے ”پاکستان اینڈ ایوولنگ گلوبل آرڈر“ کے موضوع پر اسلام آباد کانکلیو۔2024 کا فلیگ شپ ایونٹ منعقد کیا۔ ایونٹ میں آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ سینٹر (آئی ایس ایس آئی) نے ورکنگ سیشن۔II کی میزبانی کی ۔ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل (ر) زبیر محمود حیات کلیدی مقرر تھے، دیگر مقررین میں سابق سفیر ضمیر اکرم، سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈری پاولوف، جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر اور ڈائریکٹر جنرل (آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ) وزارت خارجہ سفیر طاہر حسین اندرابی شامل تھے۔

جنرل (ریٹائرڈ) زبیر محمود حیات نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی منظر نامے میں ابھرتی ہوئی تبدیلی غیر متوقع طور پر واضح ہے جہاں اصول اور ادارے غیر موثر یا زوال کا شکار ہیں، تزویراتی ماحول جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں، کثیر قطبیت، چین کا عروج، روس کی بحالی نظر آرہی ہے جبکہ بھارتی اثر و رسوخ ابھرا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، سائبر ٹیکنالوجیز، اور بائیوٹیکنالوجی جیسی تکنیکی ترقی نہ صرف قوموں کے باہمی تعامل کو تبدیل بلکہ نئے تنازعات بھی پیدا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی خطرات اب سرحدوں تک محدود نہیں رہے، نیٹو جیسے بدلتے اتحاد کو اندرونی کشیدگی کا سامنا ہے، ممالک نئی شراکتیں قائم کر رہے ہیں جو بین الاقوامی میدان میں غیر متوقع صورتحال پیدا کر رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کو اب فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا سامنا ہے۔ قبل ازیں اپنے تعارفی کلمات میں اے سی ڈی سی کے ڈائریکٹر ملک قاسم مصطفیٰ نے کہا کہ پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کو مضبوط بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کی رہنمائی کے لیے اس ابھرتے ہوئے عالمی ماحول سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور مواقع کو تلاش کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں مزید مستحکم سلامتی کے ماحول کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعمیری بات چیت میں شامل ہونے پر یقین رکھتا ہے اور اس نے خطے اور اس سے باہر ہتھیاروں کے کنٹرول اور اسٹریٹجک استحکام کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کثیرالجہتی کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ سابق سفیر ضمیر اکرم نے کہا کہ مسابقتی مغربی اور غیر مغربی بیانیے عصری ماحول کی تشکیل کررہے ہیں، عصر حاضر میں روس اور چین کے درمیان اتحاد کو بغیر کسی حد کے اتحاد کہا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹریٹجک اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے پھیلاو¿، ہتھیاروں کے کنٹرول میں تبدیلی اور تخفیف اسلحہ نے بین الاقوامی ماحول میں اہم کردار ادا کیا ہے، بھارت۔امریکہ شراکت داری پاکستان اور چین کے خلاف جارحیت کو ہوا دے رہی ہے،جنوبی ایشیا کے خطے میں علاقائی تنازعات کے ساتھ تین جوہری طاقتیں ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک انتہائی غیر مستحکم خطہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے مستقبل کے اسٹریٹجک راستے کے بارے میں حقیقت پسند ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے چین کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ سینٹ پیٹرزبرگ اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آندرے پاولوف نے کہا کہ ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے نظام میں کمی آئی ہے، جارحانہ اور دفاعی، سٹریٹجک سے غیر اسٹریٹجک ہتھیاروں میں فرق کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اینٹی بیلسٹک میزائل معاہدے سے نیو اسٹارٹ تک ہتھیاروں کے کنٹرول کے نظام میں بگاڑ پیدا ہوا ہے جس میں آخری امریکہ۔روس دو طرفہ ہتھیاروں کے کنٹرول کی بحالی کی کوئی امید نہیں ہے۔ جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ دنیا ایک قطبی سے کثیر قطبی دنیا کی طرف بڑھ رہی ہے، چین اور روس کی پارٹنرشپ بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہم علاقائی فالٹ لائنز پاک بھارت حل طلب تنازعات ہیں، جب تک پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آتی امن و استحکام نا ممکن رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان وسطی، جنوبی اور مشرقی ایشیا میں عدم استحکام کا ایک بڑا عنصر ہے، پاکستان کے لئے انسانی سلامتی اور ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ معاشی استحکام اور سیاسی استحکام، گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ سفیر طاہر حسین اندرابی نے کہا کہ دنیا ہتھیاروں کے اخراجات، ہتھیاروں کی دوڑ، زمینی، فضائی، سمندری اور بیرونی خلا اور نئے ہتھیاروں میں غیر معمولی اضافہ دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑی طاقتیں جوہری قوت کو جدید بنانے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ ہتھیاروں پر کنٹرول کا نظام زوال کا شکار ہے، بھارت کو چھوٹ اور ملٹری ہارڈویئر فراہم کئے جا رہے ہیں جو عدم توازن کو فروغ دے رہا ہے، بھارت بین الاقوامی معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے، بھاری تعداد میں بھارتی فوجی اثاثے پاکستان کے خلاف تعینات کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اب بھی ایٹمی اوور ہینگ کے تحت جنگ کی منصوبہ بندی کررہا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان تحمل اور ذمہ داری کا مظاہرہ اور ہتھیاروں کی دوڑ سے گریز کررہا ہے۔