عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار ،عدالت نے عادل بازی کو بطور رکن قومی اسمبلی بحال کر دیا

بس بڑے صاحب کا خط آ گیا تو بندے کو ڈی سیٹ کر دو یہ نہیں ہو سکتا، جسٹس عقیل عباسی ، عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟، جسٹس عائشہ ملک، الیکشن کمیشن عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر عدالت کو مطمئن نہ کرسکا

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 12 دسمبر 2024 11:29

عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار ،عدالت نے عادل بازی کو ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 دسمبر 2024)سپریم کورٹ نے این اے 262 سے عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کافیصلہ کالعدم قرار دیدیا،عدالت نے عادل بازی کو بطور رکن قومی اسمبلی بحال کر دیا، الیکشن کمیشن عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر عدالت کو مطمئن نہ کرسکا، سپریم کورٹ نے عادل بازئی کی الیکشن کمیشن کیخلاف اپیل منظور کر لی، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔

دوران سماعت سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیئے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کر دو یہ نہیں ہو سکتا۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک حلقے کے عوام کو ڈس فرنچائز کرنے کا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے، اس پر درخواست گزار وکیل سردار تیمور نے کہا کہ ایک دن معاملہ الیکشن کمیشن پہنچا اگلے دن کارروائی شروع کر دی گئی ، ہم بلوچستان ہائیکورٹ گئے کہ ہمیں متعلقہ دستاویزات تو دیں، ہم نے کہا جو ن لیگ سے وابستگی کا بیان حلفی بتایا جا رہا ہے وہ تو ہمیں دیں۔

(جاری ہے)

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی؟۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کہہ دیا وہ دستاویز تو سیکرٹ ہے۔ اس دوران عدالت نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن کو روسٹرم پر بلا لیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا یہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس وقت آئینی بنچ میں ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی کو ادھر بھی بھجوا دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر کوئی فالتو لاءافسران ہیں تو انھیں ادھر بھی بجھوا دیا کریں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کے پاس دو بیان حلفی آئے تھے، ایک جیتنے والا کہہ رہا ہے میرا ہے دوسرا وہ کہتا ہے میرا نہیں، آپ نے کس اختیار کے تحت بغیر انکوائری ایک بیان حلفی کو درست مان لیا؟ کیا الیکشن کمیشن یہ کہہ سکتا ہے کہ بس ایک بیان حلفی پسند نہیں آیا دوسرا آگیا؟۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتوں اور مجسٹریٹوں کو بھی نہیں مانتے، خود بھی انکوائری نہیں کرتے، کیا الیکشن کمیشن ایسا ٹرائل کرنے کا حق رکھتی ہے؟ ٹرائل کورٹ کی پاور الیکشن کمیشن کے پاس کہاں سے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے تو بلڈوزر لگایا ہوا ہے۔واضح رہے کہ دو روز قبل بھی سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا 21 نومبر کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیاتھا۔

جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس عقیل عباسی اور جسٹس عائشہ ملک بھی تین رکنی بینچ کا حصہ تھیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے تیمور اسلم سے مکالمہ کیا کہ او ہو کیا آپ واقعی مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انحصار کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اب تو وہ کہتے ہیں ترمیم بھی آچکی تھی۔دوران سماعت، عادل بازئی کے وکیل تیمور اسلم نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیاتھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ اس کیس میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انخصار کر سکتے ہیں، کیا عادل بازئی مخصوص نشستوں والے 81 ممبران کی فہرست کا حصہ تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے، بہرحال چلیں آگے بڑھیں۔ریگولر بینچ نے ریمارکس دئیے تھے کہ عدالت میں بتایا گیا الیکشن کمیشن ڈیکلریشن نہیں دے سکتا، عدالت کو بتایا گیا امیدوار کا تعلق کس جماعت سے ہے یہ تعین کرنا سول کورٹ کا کام ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عادل بازئی کے دو حلف نامے ہیں اور وہ کہتے ہیں انہوں نے دوسرے پر دستخط کیا، کیا الیکشن کمیشن فراڈ پر انکوائری کر سکتا ہے؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر عادل بازئی کے حلف ناموں کا معاملہ سول کورٹ میں تھا تو الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار کیسے ہے؟ کیا الیکشن کمیشن سول کورٹ کے زیر التوا معاملے پر نوٹس لے سکتا تھا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے تھے کہ پہلے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا معاملہ طے کریں، کسی کو اسمبلی سے باہر نکال دینا معمولی کارروائی نہیں لہٰذا پر پہلو کو دیکھنا ہوگا۔بعدازاں سپریم کورٹ ریگولر بینچ نے الیکشن کمیشن سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی تھی۔