ہم نے سنا تھا کہ وزیراعظم 23 مارچ کوبجلی سستی کرنے کا بڑا اعلان کریں گے

پیٹرول ڈیزل پر10، 10روپے ٹیکس لگانے کے بعد بھی بجلی سستی نہیں کی گئی، ٹیکس کی مد میں 200ارب عوام کی جیب سے نکل کر حکومت کو جائیگا،آئی پی پیز معاہدوں میں بچت پر بھی بجلی سستی نہیں کی گئی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 25 مارچ 2025 21:38

ہم نے سنا تھا کہ وزیراعظم 23 مارچ کوبجلی سستی کرنے کا بڑا اعلان کریں ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 25 مارچ 2025ء ) سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ امید تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کوبجلی سستی کرنے کا بڑا اعلان کریں گے، پیٹرول ڈیزل پر10، 10روپے ٹیکس لگانے کے بعد بھی بجلی سستی نہیں کی گئی،ٹیکس کی مد میں 200ارب عوام کی جیب سے نکل کر حکومت کو جائیگا،آئی پی پیز معاہدوں میں بچت پر بھی بجلی سستی نہیں کی گئی۔

انہوں نے سماء نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترسیلات زر نے ہماری معیشت کو بڑا سہارا دیا ہے، اور ترسیلات زر مزید بڑھ رہی ہیں، ایکسپورٹ اور ترسیلات زر بڑھا کر امپورٹ کے برابر ہوتی ہیں، اگر ہم امپورٹ کو کم رکھیں، جب ہماری گروتھ، شرح نمو بڑھتی ہے تو ہماری امپورٹ بھی بڑھ جاتی ہیں جس کی وجہ سے اس کیلئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوتے اور روپیہ پھر ڈی ویلیو ہوتا ہے، ہمارے اوپر 20، 25ارب ڈالر کا قرض ہے ، اس پر سود دینا ہوتا ہے اور پیسے واپس کرنے ہوتے ہیں، اس کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ برآمدات کو اتنا بڑھا لیں کہ امپورٹ کے برابر آجائیں، تاکہ ترسیلات زر سے قرض ادا کرسکیں۔ ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے 90ء کی دہائی سے ہم وقت ضائع کررہے ہیں، اس وقت ہماری ایکسپورٹ ویتنام کے برابر تھیں، آج ویتنام کی ایکسپورٹ 380ارب ڈالر کے برابر ہیں، ہم بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے، ہمارے 2کروڑ 70لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، صحت کی سہولیات نہیں دے سکتے، بجلی مہنگی ہے ٹیکسز زیادہ ہیں، دنیا بھر میں ایکسپورٹ پر ہمارا ٹیکس زیادہ ہے، گیس مہنگی ہے، بجلی مہنگی ہے ، امن وامان کی صورتحال کے مسائل ہیں، تو کیسے ایکسپورٹ بڑھے گی؟جب تک ہم لوکل گورنمنٹ کو خود مختار نہیں بناتے، بجلی سستی نہیں کرتے، نجکاری نہیں کرتے تو ہم کیسے ایکسپورٹ بڑھائیں گے؟اس حکومت میں افراط زر اس لئے کم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، اس حکومت نے ایک سال میں معاشی پالیسی کیلئے ایک اقدام نہیں اٹھایا۔

جس سے معاشی استحکام آسکے اور ہم گروتھ کی جانب جاسکیں ماسوائے آئی ایم ایف پروگرام دستخط کرنے کے کوئی معاشی قدم نہیں اٹھایا گیا۔جب تک این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی نہیں کرتے ملک میں خسارہ کم نہیں ہوگا۔حکومت تنخواہ دار طبقات سے 38فیصد ٹیکس لیتی ہے لیکن ہزاروں ایکڑ اراضی اور پراپرٹی والوں سے ٹیکس نہیں لیتی ، جب تک اشرافیہ کے پنجے سے ملک کو نہیں چھڑوائیں گے تو ملک کیسے آگے بڑھے گا؟انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ رہی تھی کہ پیٹرول اور ڈیزل پر 10، 10روپے ٹیکس لگایا، 17ارب حکومت ملتا ہے یعنی 200ارب عوام کی جیب سے نکل کر حکومت کو جائیگا۔

امید تھی کہ وزیراعظم 23مارچ کوبجلی سستی کرنے کا بڑا اعلان کریں گے، ٹیکس لگانے کے بعد بھی بجلی سستی نہیں کی گئی،حکومت نے ٹیکس بھی لے لیا اور آئی پی پیز معاہدوں سے بھی بچت ہوئی لیکن پھربجلی سستی نہیں کی گئی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بھی 3، 4روپے سستے نہیں کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ کپاس، گندم ، گنا، چاول اور مکئی پانچوں کو فصلوں کی پیداوار کم سطح پر ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ بھی کم ہوگئی ہے، اسی لئے اوسط انکم کم ہورہی ہے۔