شام کے عبوری حکام ساحلی علاقے میں پرتشدد واقعات کی معتبر تحقیقات کریں، پاکستان

شام کو درپیش سیاسی، اقتصادی، سکیورٹی اور انسانی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جامع اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے،پاکستانی مندوب

بدھ 26 مارچ 2025 17:24

اقوام متحدہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مارچ2025ء)پاکستان نے شام کے ساحلی علاقے میں تشدد کی حالیہ لہر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عبوری حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تمام شہریوں کی حفاظت کریں اور واقعات کی معتبر تحقیقات کریں۔میڈیارپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے نامزد مستقل نمائندہ عاصم افتخار احمد نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایاکہ فرقہ وارانہ تنازعات انسانی چیلنج کو بڑھانے کے علاوہ پرامن سیاسی منتقلی کو نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے۔

پاکستانی ایلچی نے شام میں سیاسی اور انسانی صورتحال پر گفتگو کے دوران کہا کہ شام کے ساحلی علاقوں میں پر تشدد واقعات گہری تشویش کا باعث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جرائم پر سزائوں سے اب کسی کو استثنا حاصل نہ ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے شام کے عبوری حکام کی طرف سے ایک آزاد کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ شام کی نئی قیادت ایک جامع، مستحکم اور خوشحال مستقبل کے لئے قوم کی رہنمائی کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ وقت عالمی برادری کے لیے اس مقصد کے لئے کوششوں میں شام ہونے اور معاونت کرنے کا ہے۔ شام کے جاری انسانی اور اقتصادی چیلنجزکے حوالے سے پاکستانی ایلچی نے اقوام متحدہ کے عبوری ایکشن پلان کے لئے مضبوط بین الاقوامی حمایت پر زور دیا جس کا مقصد غربت میں کمی، پناہ گزینوں کی بحالی اور ادارہ جاتی مضبوطی ہے۔ اس سلسلے میں تعمیر نو اور امدادی کوششوں میں سہولت فراہم کرنے کے لئے یکطرفہ پابندیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔

دہشت گرد تنظیموں سے وابستگی رکھنے والے اداروں کے خلاف چوکس رہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نظام کی دوبارہ تشخیص اور انخلا کی بھی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ضروری اقتصادی اور انسانی اقدامات میں رکاوٹ نہ آئے۔پاکستانی سفیرعاصم افتخار احمد نے کہا کہ شام کی قیادت اور شام کی ملکیت میں چلنے والا سیاسی عمل، جو اقوام متحدہ کی طرف سے سہولت فراہم کرتا ہے پائیدار امن کی کلید ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ شام کو درپیش سیاسی، اقتصادی، سکیورٹی اور انسانی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جامع اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ایلچی نے 1974 میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کی سرزمین میں اسرائیل کی مسلسل دراندازی اور فضائی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات ناقابل قبول ہیں کیونکہ یہ شام کے لئے ناقابل قبول ہیں۔

علاقائی سالمیت، اور بین الاقوامی قانون اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو فوری طور پر اپنی دراندازی بند کرنی چاہیے اور اس کونسل کو اسرائیل کو اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کو تسلیم کرتے ہیں،جیسا ہ عقبہ، ریاض، عمان، پیرس اور برسلز میں ہونے والی ملاقاتیں جو شام کی پرامن منتقلی اور بین الاقوامی برادری میں دوبارہ انضمام کے لئے عالمی عزم کو اجاگر کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شام کی عبوری حکومت اور سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ( ایس ڈی ایف ) کے درمیان معاہدہ جس کا مقصد تمام سول اور فوجی اداروں کو مربوط کرنا ہے، قومی اتحاد کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل دہشت گردی کا خطرہ خاص طور پر القاعدہ اور داعش سے وابستہ افراد اور غیر ملکی دہشت گرد جنگجوں کی طرف سے خطرہ اب بھی گہری تشویش ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی 1267 پابندیوں کی کمیٹی اور اس کی نگرانی کرنے والی ٹیم سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے کو روکنے کے لئے اپنی چوکس تشخیص جاری رکھیں۔ پاکستانی سفیر نے عالمی برادری کی توجہ شام میں سنگین انسانی بحران کی طرف مبذول کرائی جہاں 16.5 ملین سے زائد افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ 90 فیصد سے زیادہ شامی غربت میں رہتے ہیں، اور نصف سے زیادہ آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو شام کی طویل مدتی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کوششیں تیز کرنی چاہییں۔