اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 اپریل2025ء) وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت بدلتی ہوئی امریکی تجارتی پالیسی اور ٹیرف پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان طویل المدتی تزویراتی شراکت داری کے عزم سے آگاہ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
وفاقی وزیر نے ہفتہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ چند روز میں ہم اپنی سفارشات وزیر اعظم کو پیش کریں گے اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد اس حوالہ سے امریکا کو آگاہ کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ امریکا ہمارا طویل مدتی اسٹریٹجک پارٹنر ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس حوالہ سے دو کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں ایک سٹیئرنگ گروپ بھی شامل ہے جس کی قیادت وزیر خزانہ کرتے ہیں جبکہ ایک ورکنگ گروپ کی سربراہی سیکرٹری تجارت کرتے ہیں ۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں میں ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں جو مستقبل میں بھی چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کے مقصد سے جاری رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت مثبت انداز میں ایک پیکج پر کام کر رہی ہے اور جب اسےحتمی شکل دی جائے گی تو اسے امریکی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان دونوں ممالک کے لیے درمیانی اور طویل مدت میں مساوی مواقع کی صورتحال کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ بہت اہم سٹریٹجک پارٹنر ہے اور امریکہ کو کی جانے والی برآمدات کے لحاظ سے ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔دریں اثنا اقتصادی استحکام اور پائیداری کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کا مقصد برآمدات کے فروغ کے ذریعے ، پیداوار میں اضافہ اور نجی شعبے کی قیادت والی حکمت عملیوں کے ذریعے ترقی کو آگے بڑھانا ہے، جس میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے، کاروباری اعتماد کو فروغ دینے اور اصلاحات کو نافذ کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک نے میکرو اکنامک استحکام حاصل کر لیا ہے اور کسی بھی معیشت کی ترقی کیلئے ایسے عناصر کا ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بیرونی محاذ پر معاشی استحکام حاصل کیا ہے کیونکہ ہم نے ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، اور سالانہ بنیادوں پر مالی سال کے پہلے دوماہ کے دوران 32 فیصد اضا فہ ہوا ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ ہماری برآمدات بھی مستحکم ہیں اور ان میں بھی تقریباً 7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ جون کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 13 بلین ڈالر سے زیادہ ہو جائیں گے۔اندرون ملک معاشی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افراط زر 0.7 فیصد تک کم ہو گیا ہے جو 6 دہائیوں کی کم ترین سطح ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم بنیادی افراط زر کے لحاظ سے بھی درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا افراط زر کی نگرانی اور اس کے اثرات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ادارہ جاتی طریقہ کار موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ پالیسی ریٹ کی شرح میں بھی کمی آئی ہے، جس سے صنعت کے فائدے کے لیے کبور کو نیچے لایا گیا ہے۔انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ کاروباری اعتماد، سرمایہ کاروں کا اعتماد، صارفین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جیسا کہ مختلف رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے۔
وفاقی وزیر خذانہ نے ٹیکسیشن، توانائی اور نجکاری سمیت ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے فروغ کے لیے حکومت کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ 24 سرکاری اداروں کو نجکاری کمیشن کے حوالے کر دیا گیا ہے اور پی آئی اے کی دوبارہ نجکاری کا آغاز رواں ماہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے کیونکہرواں سال عید الفطر پر اقتصادی اخراجات گزشتہ سال کے 720 ارب کے مقابلے میں تقریباً 870 ارب روپے تک بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے برآمدات کی زیر قیادت معاشی نمو کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کا ہر شعبہ اب برآمد ات کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے آٹو سیکٹر نے بھی برآمدات کا آغاز کر دیا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کامیابی کے ساتھ چھ ماہ کا جائزہ لیا اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ ہمار اقدامات معیارات کے مطابق تھے۔
انہوں نے کہا کہ سٹرکچرل بینچ مارکس نے بھی تاریخی ترقی دیکھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ تاریخیی فیصلہ تھا۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف بورڈ اس کی منظوری دے گا، ہمیں اگلی قسط کی مد میں اضاف ایک بلین ڈالر ملیں گے، جو موجودہ ای ایف ایف EFF پروگرام کے تحت ہے۔ انہوں نے کہا ک آئی ایم ایف سے ہ لچک اور پائیداری کے فنڈ پر بھی بات چیت جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنڈ کے ساتھ موجودہ پروگرام ملک کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ آخری پروگرام ہو سکتا ہے بشرطیکہ مشکل پالیسی فیصلوں کا انتخاب کیا جائے۔ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے حوالہ سے وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ اصلاحات پر عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس محصولات گزشتہ مالی سال کے 8.8 فیصد کے مقابلے رواں سال جون کے آخر تک جی ڈی پی کے 10.6 فیصدپہنچ جائیں گے اور بتدریج 13.5 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال ریونیو کا ہدف سالانہ بنیادوں پر 32.5 فیصد زیادہ ہے۔ ٹیکس کے دائرہ کار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور 31 اکتوبر تک ٹیکس فائلرز کی تعداد 20 لاکھ سے دگنی ہو کر 40 لاکھ ہو گئی اور گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔اسی طرح کسٹمز کے نفاذ میں ڈیجیٹل تبدیلی سے محصولات میں 16 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم اب فرٹیلائزر، شوگر، تمباکو کے شعبوں میں مکمل طور پر نافذ ہوچکا ہے جبکہ سیمنٹ، مشروبات اور کپاس کے شعبوں میں بھی اس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ریٹرن فائل کرنے کو آسان بنایا جا رہا ہے اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس وکلاء یا کنسلٹنٹس سے مشورہ کیے بغیر گھروں سے ٹیکس جمع کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔توانائی کے شعبہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کے لیے بجلی کے نرخوں میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے جو ایک اہم تبدیلی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈسٹری بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے این ٹی ڈی سی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز)میں بھی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارتوں کے ساتھ 400 محکمے منسلک ہیں اور ہم آہستہ آہستہ وزارتوں اور محکموں کو ری اسٹرکچرنگ کی طرف لے جا رہے ہیں۔