پاکستان سے افغان مہاجرین کی زبردستی بیدخلی روکنے کی درخواست

یو این اتوار 6 اپریل 2025 01:00

پاکستان سے افغان مہاجرین کی زبردستی بیدخلی روکنے کی درخواست

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 اپریل 2025ء) انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ افغانوں کی ملک سے جبری بیدخلی اور انہیں افغانستان بدر کرنے کے منصوبوں پر عملدرآمد روک دے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار رچرڈ بینیٹ اور دیگر نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تحفظ کے لیے اپنے ملک سے ہجرت کرنے والے افغانوں کی میزبانی جاری رکھے جس طرح وہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک کرتا آیا ہے۔

Tweet URL

ماہرین نے پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ افغانوں کی ملک سے منتقلی، ملک بدری، گرفتاریوں، انخلا، ڈرانے دھمکانے اور ان پر دیگر طرح کا دباؤ ڈالنے کے اقدامات فوری طور پر بند کرے اور انہیں تحقیر آمیز انداز میں ملک چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ، پاکستان کی جانب سے افغانستان کے شہریوں کو رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کے لیے دی جانے والی توسیعی ڈیڈ لائن 31 مارچ کو ختم ہو گئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اب اس میں 10 اپریل تک اضافہ کر دیا گیا ہے جبکہ دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے ملحقہ بڑے شہر راولپنڈی سے انہیں بیدخل کرنے کی کارروائیاں جاری ہیں۔

عدم تحفظ کے حقیقی خطرات

ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں موجود لاکھوں افغان شہریوں کو اپنے ملک میں تحفظ سے متعلق حقیقی خطرات کے باوجود واپس بھیجے جانے کا خدشہ ہے۔

انہیں افغانستان میں صنفی بنیاد پر تشدد اور خواتین و لڑکیوں کے حقوق پر منظم رکاوٹوں کا خطرہ درپیش ہے۔ ایسے حالات میں ان لوگوں کی بیدخلی انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون، پناہ گزینوں کے قانون اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کی ہدایات کے خلاف ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جبراً افغانستان بھیجے جانے والے لوگوں کو صنفی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر امتیازی سلوک کا سنگین خطرہ بھی درپیش ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین پاکستان کی جانب سے ستمبر 2023 میں غیرقانونی طور پر ملک میں مقیم افغانوں اور دیگر کی بیدخلی کے منصوبے پر تواتر سے تنقید کرتے آئے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت پہلے ہی کئی لاکھ افغان اپنے ملک واپس بھیجے جا چکے ہیں۔

ملک بدری اور خدشات

اقوام متحدہ نے پاکستان کی جانب سے افغانوں کو ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈ لائن سے پہلے ان کی گرفتاریوں میں پریشان کن اضافے کی اطلاع دی تھی۔

مایوسی کا شکار ایسے بہت سے افغانوں نے ادارے کے ماہرین سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ انہیں افغانستان میں طالبان حکمرانوں کی جانب سے مظالم کا خطرہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان خواتین، لڑکیوں، ایل جی بی ٹی کیو آئی افراد، نسلی و مذہبی اقلیتوں، سابق حکومت کے عہدیداروں اور سکیورٹی اہلکاروں، انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کے لیے ایسے خطرات کہیں زیادہ ہیں۔

واپس جانے والے بے سہارا بچے انسانی سمگلنگ، نوعمری کی شادی اور بدسلوکی کا شکار ہو سکتے ہیں جبکہ جسمانی طور پر معذور اور معمر لوگوں کے لیے بھی سنگین خطرات ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کی واپسی کے فیصلے کا فرداً فرداً جائزہ لینا ضروری ہے۔

Mehrab Afridi

محفوظ مستقبل کے شکستہ خواب

ماہرین نے دیگر ممالک کی جانب سے افغانوں کو ملک بدر کیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جانے والے بہت سے افغانوں کو کسی تیسرے ملک میں آباد ہونے کی معقول توقعات تھیں تاہم ان کی آباد کاری کے پروگرام اچانک بند کیے جانے سے محفوظ مستقبل سے متعلق ان کے خواب ٹوٹ گئے ہیں۔ عطیہ دہندہ ممالک کی جانب سے امدادی مالی وسائل روکے جانے سے افغان حکمرانوں اور امدادی اداروں کی ملک میں واپس آنے والے پناہ گزینوں کو سنبھالنے کی صلاحیت میں مزید کمی آئے گی جبکہ بڑے پیمانے پر اور اچانک ان وسائل کی فراہمی بند ہو جانے کے باعث افغانوں کو درکار انسانی امداد کی فراہمی پہلے ہی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ماہرین نے کہا ہےکہ افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بیرون ملک مقیم افغانوں کے لیے پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے جن کے لیے وسیع تر عالمی برادری کی مضبوط مدد درکار ہو گی۔