میانمار زلزلہ: متاثرہ علاقوں میں 80 فیصد عمارتیں تباہ، یو این ڈی پی

یو این منگل 8 اپریل 2025 21:30

میانمار زلزلہ: متاثرہ علاقوں میں 80 فیصد عمارتیں تباہ، یو این ڈی پی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 08 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ زلزلے سے تباہ حال میانمار میں لوگ عمارتیں گرنے کے خوف سے سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں جبکہ مون سون کے موسم میں انہیں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔

دس روز قبل آنے والے 7.7 شدت کے زلزلے نے ملک کے وسطی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے نمائندے تیتن مترا نے بتایا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں پُل اور عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں جبکہ مصدقہ جانی نقصان 3,500 سے تجاوز کر گیا ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیاں اب 'المناک مرحلے' میں داخل ہو گئی ہیں جن میں ملبے تلے دب جانے والے لوگوں کی تلاش ترک کر کے بحالی کے کام پر توجہ دی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

زلزلے میں تقریباً 4,000 لوگ زخمی ہوئے ہیں جبکہ وسطی میانمار کے شہر سیگانک، منڈلے اور میگوے میں 80 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔

مون سون کا خطرہ

انہوں نے بتایا ہے کہ اس آفت کے بعد ہسپتالوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے جبکہ ادویات اور ضروری طبی سازوسامان کی شدید قلت ہے۔ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ضروری طبی مدد تک رسائی نہیں ہے۔

شہری علاقوں میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام تباہ ہو جانے کے باعث پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں پھیلنے کا سنگین خطرہ ہے۔ اس کے ساتھ مون سون کی بارشوں کا موسم خلاف توقع قبل از وقت شروع ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں رہن سہن کے حالات مزید بگڑنے کے خدشات ہیں۔

محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ جمعے تک ملک کے بڑے حصوں میں تیز ہوائیں چلنے اور بارشوں کا امکان ہے۔

تیتن مترا کا کہنا ہے کہ ان حالات میں متاثرین زلزلہ کو پناہ کی فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ شکستہ عمارتیں گرنے کے خوف سے اپنے گھروں کو واپس جانے سے گریزاں ہیں۔

خوراک کی قلت اور مہنگائی

زلزلے سے متاثرہ شہروں میں خوراک کی قلت ہے۔ لوگوں کے ذرائع آمدنی ختم ہو گئے ہیں اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے متاثرین کی ضروریات کے حوالے سے اپنا ابتدائی جائزہ مکمل کر لیا ہے جبکہ 'یو این ڈی پی' عمارتوں کی حالت کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ کون سی جگہیں رہنے کے لیے محفوظ ہیں۔

ان کا کہنا ہے، اگرچہ ملک کے تمام علاقوں میں حکومت اور حزب اختلاف کی فورسز کے مابین جاری لڑائی مکمل طور پر بند نہیں ہوئی تاہم فریقین کی جانب سے جنگ بندی کے اعلانات ہونے کے بعد امید ہے کہ متاثرہ مقامات پر انسانی امداد پہنچانے میں مشکل پیش نہیں آئے گی۔

مساوی امدادی رسائی کی ضرورت

انہوں نے بتایا ہے کہ ملک کے بیشتر حصوں میں امداد کی فراہمی کا نظام فوج کے ہاتھوں میں ہے۔

چونکہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہے اس لیے یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ مساوی طور پر امداد ان علاقوں میں بھی پہنچے جن پر حکومت مخالف مسلح گروہوں کی عملداری ہے۔

زلزلے سے پہلے ملک میں چاول کے 20 فیصد کھیت خانہ جنگی کی نذر ہو چکے تھے جبکہ 35 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے اپنے گھروں سے نقل مکانی کی، ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی کو بھوک کا سامنا تھا اور تقریباً دو کروڑ کو انسانی امداد کی ضرورت تھی۔