کانگو: بچوں کو دانستہ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یونیسف

یو این ہفتہ 12 اپریل 2025 02:15

کانگو: بچوں کو دانستہ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یونیسف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) کے مشرقی علاقوں میں بچوں پر جنسی تشدد کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر کے دہشت پھیلائی جا رہی ہے۔

ادارے کے ترجمان جیمز ایلڈر نے بتایا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ہی بچوں سے جنسی زیادتی کے ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں۔

رواں سال جنوری اور فروری میں جنگ زدہ علاقوں میں جنسی زیادتی اور تشدد کے تقریباً 10 ہزار متاثرین میں 45 فیصد نوعمر ہیں۔ اس طرح گویا ہر نصف گھنٹے کے بعد ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

Tweet URL

جمہوریہ کانگو کے مشرق میں صوبہ شمالی کیوو اور جنوبی کیوو روانڈا کے حمایت یافتہ ایم 23 باغیوں اور سرکاری فوج کے مابین لڑائی کا شکار رہے ہیں اور اب ان صوبوں پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔

(جاری ہے)

ترجمان کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی تشدد کا منظم سلسلہ ہے جس میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا۔ ان حالات میں خاندان اور معاشرے تباہ ہو رہے ہیں اور ان میں دہشت پھیل رہی ہے۔

جنسی تشدد کی ہولناک لہر

جیمز ایلڈر کا کہنا ہے کہ یہ بحران جس قدر دکھائی دیتا ہے اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بدنامی، خوف اور عدم تحفظ کے باعث ایسے بہت سے واقعات کی اطلاع نہیں دی جاتی۔

اس طرح جنسی تشدد کی ہولناک وبا پھیل رہی ہے۔ عالمی برادری کو اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مداخلت کرنا ہو گی۔

اس ضمن میں بچوں پر جنسی تشدد کی روک تھام کے اضافی اقدامات، متاثرین پر مرتکز خدمات اور ان کے لیے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی اطلاعات دینے کے قابل رسائی ذرائع کی ضرورت ہے۔ متاثرین کو نظر آنا چاہیے کہ دنیا نے ان سے منہ نہیں موڑا اور ان واقعات کے ذمہ داروں کا محاسبہ یقینی بنایا جانا چاہیے۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث اس مسئلے پر قابو پانے کے اقدامات میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں متاثرین کو طبی نگہداشت اور نفسیاتی و قانونی مدد کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ترجمان نے رواں ہفتے کانگو کے ایک ہسپتال کے اپنے دورے کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ وہاں جنسی تشدد کے 127 متاثرین کو خصوصی نگہداشت تو درکنار بنیادی طبی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر مالی وسائل کی کمی پوری نہ ہوئی تو آئندہ تین ماہ میں 250,000 بچوں کو صنفی بنیاد پر تشدد سے بچاؤ کی ضروری خدمات میسر نہیں آ سکیں گی۔

طویل مدتی اثرات

ترجمان کا کہنا ہے کہ، امدادی وسائل کے بحران سے فوری ضروریات کی تکمیل ہی مشکلات کا شکار نہیں ہو گی بلکہ اس کے طویل مدتی اثرات بھی ہوں گے۔ ممکنہ طور پر، آئندہ برس ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ بچے خسرے کی ویکسین سے محروم رہیں گے۔

تقریباً 20 لاکھ بچوں کا غذائی قلت کے حوالے سے طبی معائنہ نہیں ہو سکے گا اور تقریباً پانچ لاکھ بچوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں مل سکے گی۔

جیمز ایلڈر نے کہا ہے کہ اس معاملے میں بے عملی کی بھاری قیمت بچوں کی قابل انسداد تکالیف میں اضافے اور ان کے مستقبل کی تباہی کی صورت میں چکانا ہو گی۔