گندم کی لاگت 3 ہزار روپے ہے لیکن کسان کو 2100 روپے میں گندم بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے

کسان کی تباہی ملکی تباہی کے مترادف ہے، اگر کسان ہی پریشان ہو گا تو سب متاثر ہوں گے، شاہد خاقان عباسی نے خبردار کر دیا

muhammad ali محمد علی جمعہ 18 اپریل 2025 22:11

گندم کی لاگت 3 ہزار روپے ہے لیکن کسان کو 2100 روپے میں گندم بیچنے پر مجبور ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 18 اپریل2025ء) شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ گندم کی لاگت 3 ہزار روپے ہے لیکن کسان کو 2100 روپے میں گندم بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کسان کی تباہی ملکی تباہی کے مترادف ہے، اگر کسان ہی پریشان ہو گا تو سب متاثر ہوں گے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گندم بحران اور کسانوں کے استحصال سے متعلق سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کا کسان بدترین مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور پورے ملک میں کسان سراپائے احتجاج ہے، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، کسان گندم اگاتا ہے تو ملک کو آٹا ملتا ہے، اگر کسان ہی پریشان ہو گا تو سب متاثر ہوں گے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ 2023 میں بھی کسان مسائل کا شکار رہا اور 2024 میں حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 4000 روپے فی من گندم نہیں خریدے گی جس کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ سال مختلف قیمتوں پر گندم فروخت کرنا پڑی۔

(جاری ہے)

کسی نے 2200 روپے فی من تو کسی نے 2400 روپے میں گندم بیچی۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب جب کہ یوریا اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، کسان مجبور ہے کہ وہ گندم 2100 روپے فی من کے حساب سے بیچے۔

جب کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا، لیکن آج کسان اپنا اثاثہ لگا کر بھی منافع نہیں کما رہا، اگر حالات یہی رہے تو آئندہ برس ملک کو گندم درآمد کرنی پڑے گی، آج کسان کو 3 ہزار روپے فی من لاگت آ رہی ہے اور اسے اپنی پیداوار 2100 روپے میں بیچنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ چند ووٹوں کے لیے کسان کو قربان مت کریں۔ جب کسان کی آمدنی نہیں بڑھے گی تو معیشت کی دیگر چیزیں جیسے ٹریکٹر، موٹرسائیکل کی خریداری بھی متاثر ہوگی،انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ملک کی منڈی کسان کے لیے سازگار نہیں، تو کم از کم اسے اپنی گندم برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔

شاہد خاقان عباسی نے پنجاب حکومت کی انسینٹیو اسکیم پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اس سے صرف چند لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، اکثریتی کسان اب بھی محروم ہیں۔