ایشیا کے بڑے شہروں کو بڑھتی آبادی اور موسمیاتی بحران کا سامنا

یو این منگل 22 اپریل 2025 20:45

ایشیا کے بڑے شہروں کو بڑھتی آبادی اور موسمیاتی بحران کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 اپریل 2025ء) معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ایشیا کے وسیع و عریض شہروں کو درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے، تیزی سے بڑھتی آبادی اور غیرمنصوبہ بند شہری ترقی جیسے مسائل کے سبب غیریقینی مستقبل کا سامنا ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے 10 شہروں میں سے سات ایشیا میں واقع ہیں۔ان میں ٹوکیو، دہلی، شنگھائی اور ڈھاکہ سرفہرست ہیں۔

ان بڑے شہروں کو مواقع اور ترقی کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب ان سے معاشی تنزلی کے خطرات لاحق ہیں۔

علاقائی ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (ایسکیپ) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ہنگامی اور مشمولہ اقدامات کے بغیر ان شہروں پر پڑنے والا دباؤ عدم مساوات، سرکاری خدمات پر بوجھ اور سماجی و ماحولیاتی تناؤ میں بڑے پیمانے پر اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

'ایسکیپ' کی ایگزیکٹو سیکرٹری آرمیدا سلسیاہ علیسجابانا نے کہا ہے کہ پائیدار ترقی کے لیے شہروں کو ایسے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے جن میں مساوات اور استحکام کو ترجیح ملے۔

© IMF
جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو

گرم ہوتے شہر

ایشیا کے بہت سے بڑے شہروں کو ناقابل برداشت حد تک شدید گرمی کا سامنا ہے۔

گزشتہ سال جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں ڈھاکہ سے لےکر دہلی، نوم پنہہ اور منیلا تک ریکارڈ گرمی پڑی جس سے بنیادی ڈھانچے اور طبی نظام پر شدید دباؤ آیا۔

بڑے شہر اپنی مخصوص زندگی اور سرگرمیوں کی بنا پر دیہی علاقوں سے کہیں زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ یہ مظہر شہروں کی گنجان آبادیوں میں بالخصوص معمر اور انتہائی کم آمدنی والے لوگوں کی زندگی پر بری طرح اثرانداز ہو رہا ہے۔

درجہ حرارت میں متواتر اضافے اور سرسبز علاقوں کے سکڑنے سے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ 2000 اور 2019 کے درمیان دنیا میں گرمی سے نصف اموات ایشیا اور الکاہل خطے میں ہوئیں۔

اس صورتحال میں بعض شہر موسمیاتی شدت سے مطابقت اختیار کرنے کے لیے اختراعی طریقہ کار سے کام لے لینے لگے ہیں۔ شنگھائی میں سیلاب سے متواتر متاثر ہونے والے شہر پوڈونگ کے حکام نے اس آفت سے بروقت خبردار کرنے کا نظام قائم کیا ہے جو 1,200 مربع کلومیٹر علاقے کا احاطہ کرتا ہے۔

اس نظام کے تحت موسمیاتی پیش گوئیوں اور پانی کی صورتحال کے بارے میں اطلاعات کو یکجا کر کے سیلاب سے لاحق خطرے کے بارے میں درست معلومات حاصل کی جاتی ہیں جن کی بدولت مقامی ادارے سیلاب سے نمٹنے کے پیشگی اقدامات کر سکتے ہیں۔

معمر افراد کی بڑھتی آبادی

خطے کی آبادی میں بھی نمایاں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ 2050 تک ایشیا اور الکاہل میں معمر افراد کی تعداد 1.3 ارب تک پہنچ سکتی ہے جو 2024 سے تقریباً دو گنا زیادہ ہو گی۔

چونکہ شرح پیدائش میں کمی آ رہی ہے اور دیہات سے مہاجرت کی رفتار سست ہے اس لیے بعض شہر اب سکڑنے لگے ہیں۔ مشرقی ایشیائی خطے میں یہ صورتحال کہیں زیادہ واضح ہے جہاں دہائیوں سے پھیلتے شہروں میں اب سکڑاؤ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ان حالات میں شہری مںصوبہ سازوں پر بنیادی ڈھانچے، طبی نظام اور سرکاری خدمات کو معمر افراد کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے دباؤ ہے جن میں بہت سے لوگ اکیلے رہتے ہیں۔

تاہم بیشتر شہر ابھی تک اس حوالے سے پوری طرح تیار نہیں ہوئے۔

© UNICEF/Zhantu Chakma
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں کچی بستیوں اور آسمان سے باتیں کرتی مہنگی رہائشی عمارتوں کے درمیان واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔

کچی بستیاں اور موسمی خطرات

شہروں میں غیررسمی آبادیاں اور کچی بستیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ گھروں کی قیمتوں میں بہت سے زیادہ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ بڑھتے اخراجات کے ساتھ اجرتوں میں اسی قدر اضافہ نہیں ہو رہا۔ ایسی آبادیاں موسمیاتی خطرات سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں جبکہ نکاسی آب یا ہنگامی مدد جیسی خدمات بھی کم ہی ان تک پہنچتی ہیں۔

'ایسکیپ' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب رہائش رہنے کی جگہ کے بجائے جنس بن جائے تو اس سے شہری، قومی اور عالمی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خدشات اور مواقع

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مسائل کے باوجود ایشیا کے پائیدار مستقبل میں بڑے شہروں کا مرکزی کردار برقرار ہے۔ خدشات کو مواقع میں بدلنے کے لیے مربوط شہری منصوبہ بندی، مقامی سطح پر معلومات جمع کرنے کے مضبوط نظام قائم کرنے اور متنوع مالیات کی ضرورت ہے تاکہ شہر مستحکم ہوں، مساوات کو تقویت اور پائیدار ترقی کو فروغ ملے۔

رپورٹ میں خطے کے ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بہتر طریقہ کار کا تبادلہ کرنے کے لیے علاقائی تعاون اور شہروں کے نیٹ ورک کو مضبوط بنائیں۔

وزرا اور اعلیٰ سطحی سرکاری حکام 'ایسکیپ' کی سفارشات اور پائیدار ترقی کے حوالے سے دیگر امور پر رواں ہفتے بینکاک میں کمیشن کے 81ویں اجلاس میں بات کریں گے۔