غزہ: امدادی سامان کی رسد پر بندشوں کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور

یو این منگل 29 اپریل 2025 03:15

غزہ: امدادی سامان کی رسد پر بندشوں کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 اپریل 2025ء) غزہ میں خوراک کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً دو ماہ سے کوئی امداد علاقے میں نہیں پہنچی جہاں بیشتر لوگ روزانہ ایک وقت کے کھانے پر گزارا کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امدادی ادارے (انروا) نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک پھیل رہی ہے جبکہ امدادی خوراک کی بڑی مقدار سرحد پر پڑی ہے جسے اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے علاقے میں لانا ممکن نہیں۔

متواتر بمباری، تباہی اور بھوک نے شدید مایوسی کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں لوٹ مار کے واقعات دوبارہ شروع ہو گئے ہیں۔

Tweet URL

غزہ کی 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کا انحصار انسانی امداد پر ہے لیکن 2 مارچ کے بعد کسی طرح کا امدادی یا تجارتی سامان علاقے میں نہیں آیا۔

(جاری ہے)

ڈیڑھ سال سے جاری جنگ میں یہ امداد کی فراہمی معطل رہنے کا طویل ترین عرصہ ہے۔

خوراک، ادویات اور پانی ناپید

غزہ شہر کی ایک پناہ گاہ میں مقیم ام محمد نے 'انروا' کو بتایا ہے کہ وہ وہ روزانہ 11 افراد پر مشتمل اپنے گھرانے کے لیے کھانا تیار کرتی ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس کچھ مقدار میں آٹا موجود ہے لیکن ان کے قریب رہنے والے بیشتر خاندانوں کے پاس خوراک ختم ہو چکی ہے۔

اسی لیےکھانا تیار کرتے ہوئے انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور وہ کچھ مقدار میں روٹی ان بچوں میں بانٹ دیتی ہیں جو ان سے کھانا مانگنے آتے ہیں۔

ان کا گھرانہ روزانہ ایک وقت کھانا کھاتا ہے جس میں روٹی، دالیں اور چاول شامل ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتیں کہ جب یہ خوراک ختم ہو گئی تو پھر اس کا بندوبست کہاں سے ہو گا۔

غزہ میں خوراک کے علاوہ ادویات، پناہ کے سامان اور صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے۔

'ڈبلیلو ایف پی' نے بتایا ہے کہ بازاروں میں خوراک کی قیمتیں جنگ بندی کے عرصہ کے مقابلے میں 1,400 فیصد تک بڑھ گئی ہیں۔

غذائی قلت اور لوٹ مار

'ڈبلیو ایف پی' نے گزشتہ جمعے کو باقیماندہ امدادی سامان کھانا تیار کرنے کے مراکز کو بھیج دیا تھا جس سے چند روز کی ضروریات ہی پوری ہو سکیں گی۔ ہفتے کے اختتام پر ایسے 16 مراکز بند ہو گئے تھے جبکہ 'ڈبلیو ایف پی' کی مدد سے چلائے جانے والے 25 تنور پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے بتایا ہے کہ خوراک کی قلت کے باعث اس کی لوٹ مار کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں مسلح افراد نے ایک ٹرک اور غزہ شہر میں امدادی گودام کو آگ لگا دی تھی۔

امدادی شراکت داروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں غذائیت کی صورتحال بگڑ رہی ہے۔ جنوری سے اب تک 10 ہزار بچوں میں شدید غذائی قلت کی تشخیص ہو چکی ہے جن میں 1,600 کی حالت نازک ہے۔

اگرچہ جنوبی غزہ میں ایسے بچوں کے علاج کا سامان موجود ہے تاہم تحفظ اور رسائی کے مسائل کی وجہ سے ان تک پہنچنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

طبی سازوسامان کا بحران

'اوچا' نے بتایا ہے کہ غزہ میں زخمیوں کے علاج کا سامان ختم ہو رہا ہے جبکہ بمباری میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ طبی سامان کے گوداموں میں بچوں کے لیے مقوی دودھ، جراثیم کش اور دردکش ادویات کی شدید قلت ہے جبکہ ایمبولینس گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات اور آکسیجن کی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔

طبی شعبے کے امدادی شراکت داروں نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ان کے عملے اور بالخصوص خصوصی مہارت کے حامل افراد کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی جن میں آرتھوپیڈک اور پلاسٹک سرجن بھی شامل ہیں۔

امدادی ادارے اور ان کا عملہ دستیاب وسائل میں غزہ کے لوگوں کو مدد پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے سرحد پر خوراک اور دیگر ضروریات اشیا تیار کر کے رکھی ہیں جنہیں راستے کھلتے ہی ضرورت مند لوگوں تک پہنچایا جائے گا۔ 'انروا' کے زیراہتمام امدادی سامان کے 3,000 ٹرک بھی غزہ کی سرحدوں سے باہر موجود ہیں جبکہ 'ڈبلیو ایف پی' نے ایک لاکھ 16 ہزار میٹرک ٹن غذائی امداد جمع کر رکھی ہے جس سے چار ماہ تک 10 لاکھ لوگوں کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔