اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) انسانی حقوق کمیشن برائےپاکستان (ایچ آر سی پی) کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران ملکی جمہوری معیار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی، جس کی بنیادی وجہ عام انتخابات کی شفافیت پر بڑھتے ہوئے خدشات اور پارلیمانی نظام کی کمزوری ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں 2024ء کے دوران انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک برس میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق شدت پسندی میں اضافے کے باعث شہریوں سمیت سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو بھاری نقصان اتھانا پڑا۔رپورٹ کے مطابق اسی عرصے کے دوران فرقہ ورانہ فسادات، جائیداد کے معاملات پر جھگڑوں اور قبائلی دشمنیوں میں ضلع کُرم سرفہرست رہا، جہاں قلیل عرصے میں تصادم کی وجہ سے ڈھائی سو سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
(جاری ہے)
اس انسانی بحران نے اس وقت شدت اختیار کی، جب راستوں کی بندش کی وجہ سے اشیا خوردو نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں جہاں فرقہ ورایت میں اضافہ ہوا، وہیں توہین مذہب میں ایک خاتون سمیت 77 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، جن میں 49 ملزمان کو حراست میں لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس سوات میں ایک شخص کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے تشدد کرکے قتل کر دیا۔
محدود ہوتی شہری آذادیاں
ایچ آر سی پی کی اس سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس شہریوں کی آزدیوں کو بھی مزید محدود کرکے رکھ دیا گیا۔
اس ضمن میں غیر سرکاری سطح پر منعقد کیے جانے والے ایک قومی جرگے سے قبل ہی پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر پابندی لگا دی گئی۔رپورٹ میں سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا گیا کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کے کم از کم 105 نئے کیسز درج کیے گئے، جن پر عدلیہ کو بار بار مداخلت کرنا پڑی۔
رپورٹ کے مطابق یہ سال پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لیے بدترین ثابت ہوا، جس کے متعدد کارکنوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دائر کیے گئےکاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مختلف کیسز میں عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے جبکہ اسی دوران عدالتوں پر کام کا دباؤ برقرار رہا۔پشاور ہائی کورٹ میں 38 ہزار سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد توہین عدالت کے مقدمات کی ہے، جس میں پولیس اورسیاستدانوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
صوبائی طرز حکومت میں بہتری کی ضرورت
ایچ آر سی پی کے صوبائی کوآرڈینیٹر پروفیسر سرفراز خان کے مطابق، ''صوبے میں بہتر طرز حکمرانی اور انسانی حقوق میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔
‘‘ انکا مزید کہنا تھا، '' قیام امن کیلئے موثر کوششوں کی ضرورت کے تحت اقلیتی گروپوں، ٹرانسجینڈرز اورمزدورطبقے کی بہتری کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جانے چاہیے۔‘‘مزدوروں اورمحنت کشوں کوتحفظ فراہم کرنے پر زور دیتے ہوئے سرفراز خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال 26 کان کُن دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ سال سیلابوں اور بارشوں سے ایک سو سے زیادہ اموات واقع ہوئیں۔
ماحولیات میں بہتری لانا وقت کا اہم تقاضا ہے، صوبائی دارالحکومت پشاورکا شماراس وقت دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔‘‘صنفی بنیاد پر تشدد میں اضافہ
ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں خیبرپختونخوا میں صنفی بنیادوں پرتشدد میں بھی مسلسل اضافہ نوٹ کیا گیا۔گذشتہ سال کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں متعدد مردوں اورخواتین کوغیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
تشدد کے واقعات میں درجنوں بچوں کو بھی بدسلوکی اورجنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے فرسودہ نظام میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کے باوجود موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔صوبے میں بچوں کی ایک بڑی تعداد سے مزدوری اورجبری مشقت بھی لی جا رہی ہے تاہم موثرقانون سازی اورموجود قوانین پرعمل درآمد نہ کیے جانے کی وجہ سے بھی بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا رہا۔
افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کی خیبر پختونخوا کے راستے بیدخلی کے دوران انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مختلف صوبوں میں غیر قانونی طور پر رہائش پزیرافغان پناہ گزینوں کوگرفتارکرکے انہیں خواتین اوربچوں سمیت ملک بدر کیا جارہا ہے۔ اس دوران بے سروسامانی میں بیدخل کیے جانے والے افغان باشندوں کے مسائل میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ایچ آر سی پی نے افغان مہاجرین خصوصاﹰ بچوں،خواتین اور بزرگ شہریوں کے انسانی حقوق کا خیال رکھنے پر زور دیا۔