اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2025ء) پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے جمعہ کے روز اپنے گزشتہ فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو دی گئی مخصوص نشستیں واپس لے لیں، جو کہ گزشتہ سال جولائی میں خود سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں الاٹ کی تھیں۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے نہ صرف پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس کی مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا، جو مجموعی طور پر 77 بنتی ہیں، بلکہ یہ نشستیں ایوان میں نمائندگی کے تناسب سے حکومتی اتحاد اور دیگر جماعتوں کو الاٹ کر دی گئی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 22 مخصوص نشستیں ختم ہو گئیں اور حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
(جاری ہے)
سپریم کورٹ کے فیصلے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
اکثریتی فیصلے میں، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی، عدالت نے الیکشن کمیشن کی دائر کردہ نظرثانی درخواست کو منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہے۔ قانونی حلقوں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان میں ناانصافی کی بدترین مثال بھی ہے۔
ساتھ ہی یہ سپریم کورٹ کے اپنے دائرہ اختیار کو بھی کمزور کرتا ہے، جس کے تحت اس نے پہلے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی تھیں۔معروف قانون دان حامد خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ ایک تکنیکی نکتے پر مبنی ہے، کیونکہ اس سے قبل جس کیس کا پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ ہوا تھا، وہ دراصل پی ٹی آئی نے دائر ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کیس میں فریق سنی اتحاد کونسل تھی۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار کو وسعت دے اور کسی بھی مقدمے کے تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے۔حامد خان نے کہا کہ جولائی میںسپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا تھا، وہ اس بنیاد پر تھا کہ پی ٹی آئی کو غیر قانونی طور پر اس کے انتخابی نشان سے محروم کیا گیا اور اس کے اُمیدواروں کو زبردستی آزاد قرار دے کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔
حامد خان کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا تو ارادہ بھی نہیں تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دی جائیں، لیکن جب عدالت نے اس ناانصافی کو محسوس کیا تو یہ فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی کو غیر قانونی طور پر جماعتی حیثیت اور انتخابی نشان سے محروم کیا گیا، لہٰذا اس کی حیثیت بحال کی گئی اور مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں۔ انہوں نے کہا، "یہ فیصلہ، جس میں اپیل کی سماعت کے لیے اسی لارجر بنچ کی شرط کو بھی نظرانداز کیا گیا،پاکستان میں ناانصافی کی بدترین مثال ہے۔
"فیصلے کے پس پردہ کسی طاقت کا ہاتھ ہے؟
قانونی برادری کا بھی ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آئین اور قانون کی بنیاد پر نہیں بلکہ پس پردہ طاقتوں کی ہدایت پر دیا گیا ہے۔ ان ہی طاقتوں نے پہلے چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری میں سہولت کاری کی تاکہ مستقبل میں اپنے غیر قانونی فیصلوں کے لیے راستہ ہموار کی جا سکے اور پی ٹی آئی کو بتدریج ختم کیا جا سکے۔
وکیل رابیعہ باجوہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، "یہ ایک فیصلہ نہیں بلکہ حکم نامہ ہے جو کہیں اور سے آیا ہے، سپریم کورٹ نے صرف اسے سنایا ہے اور جنہوں نے یہ ہدایت دی ہے، انہوں نے ہی چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی دلوائی تھی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں اس کے جائز حصے سے محروم کر رہا ہے بلکہ اس کے ذریعے عدالت نے پی ٹی آئی کا مینڈیٹ دیگر جماعتوں کو دے دیا ہے، جسے کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
"ہر جماعت کو مخصوص نشستیں اس کے ووٹ بینک اور عام انتخابات میں جیتی گئی نشستوں کے تناسب سے ملتی ہیں، تو پھر کوئی جماعت اپنی حیثیت سے زیادہ مخصوص نشستیں کیسے حاصل کر سکتی ہے؟سپریم کورٹ کے فیصلے کے صحیح ہونے کی بھی کوئی دلیل ہے؟
کچھ قانون دان سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو اس تکنیکی بنیاد پر درست قرار دیتے ہیں جسے حامد خان نے ناقابلِ قبول قرار دیا تھا۔
ان کا مؤقف ہے کہ اصل مقدمہ سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے درمیان تھا اور گزشتہ سال سپریم کورٹ نے ازخود پی ٹی آئی کو مقدمے میں شامل کیا اور اُسے مخصوص نشستیں الاٹ کیں، کسی رعایت کے طور پر۔وکیل شاہ خاور کا کہنا ہے کہ قانونی بنیادوں پر یہ فیصلہ درست ہے۔ انہوں نے کہا، "اگر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دے دی ہوتیں تو وہ قابلِ قبول ہوتا کیونکہ وہ مقدمے میں فریق تھی، لیکن پی ٹی آئی تو فریق ہی نہیں تھی اور پھر بھی لارجر بینچ نے اسے مخصوص نشستیں الاٹ کر دیں۔"
ادارت: کشور مصطفیٰ