Live Updates

موجودہ آئین میں توججزکے تبادلے کے لیے دو سال کی مدت نہیں دی گئی،جسٹس محمد علی مظہر

منگل 29 اپریل 2025 23:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2025ء)سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں ججزسینارٹی کیس کی سماعت آج بدھ کوبھی جاری رہے گی جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس محمدعلی مظہرنے ریمارکس دیے ہیںکہ موجودہ آئین میں توججزکے تبادلے کے لیے دو سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیرمعینہ مدت کیلئے ہوگا۔ جبکہ جسٹس شاہدحسن نے کہاہے کہ: عدلیہ میں مجھے دو دہائیوں سے زیادہ وقت ہوچکا،آپ کو بھی چار دہائیوں سے زائد کا وقت ہو چکا ہے، ایک جج کی ساکھ کے بارے میں سب سے زیادہ گفتگو بار رومز میں ہوتی ہے،ایک جج آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرنے کا حلف اٹھاتا ہے، آپکو بتانا ہوگا یہ کیس عوامی مفاد کے تحت کیسے ہے، انھوں نے یہ ریمارکس منگل کے روزدیے ہیں۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز کے ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس نعیم اختر افغان اور شاہد بلال،جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل پانچ رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،اس دوران جسٹس محمد علی مظہر کا منیر اے ملک سے استفسار کیاکہ کیاآپ نے جواب الجواب جمع کرا دیا ہے،اس پرمنیراے ملک نے کہاکہ ابھی جواب جمع نہیں کرایا مگر جلد کرا دیں گے، اپنے موکل کی ہدایات کے بعد جواب جمع کرا دیں گے، آئین کے آرٹیکل 200 کا اصل مطلب عارضی تبادلے ہیں،اس حوالے سے میں ماضی کے آئین سے اپنے دلائل شروع کروں گا، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز ٹرانسفر کی کوئی شق شامل نہیں تھی، 1956 کے آئین میں ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے شق شامل تھی،اس شق کے تحت صدر دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کر سکتا تھا،اس شق کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی یا مخصوص مدت کیلئے تھا،1962 کے آئین کے مطابق بھی ججز کا ٹرانسفر مخصوص مدت کیلئے تھا، 1973 کے آئین میں ججز ٹرانسفر کیلئے آرٹیکل 202 تھا، اس آرٹیکل کے مطابق بھی ججز کے ٹرانسفر کی مدت اور مراعات کا تعین صدر کرتا تھا، 18ویں آئینی ترمیم کے بعدججز تبادلے کا اختیار دینے والے آرٹیکل 200 کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا،آرٹیکل 200 پر آئین کی کچھ دیگر شقوں کا بھی اثر ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل2 اے اور آرٹیکل 175 اے سے ملا کر ہی دیکھا جائے گا،آرٹیکل 2 اے میں واضح ہے کہ عدلیہ آزاد ہوگی،1976 میں آرٹیکل 200 میں نئی شق شامل کی گئی،شق کے مطابق ججز کا تبادلہ ایک سال کیلئے ہوتا تھا،1985 میں ترمیم کرکے تبادلے کی مدت دو سال کر دی گئی، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بھی تبادلہ متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط تھا، 1956 اور 1962 کے آئین میں بھی تبادلہ ججز کی رضامندی سے مشروط تھا، 1985 کی ترمیم میں جج کی رضامندی کو ختم کر دیا گیا، ایک شق یہ بھی شامل کی گئی کہ تبادلہ تسلیم نہ کرنے والا جج ریٹائر تصور ہوگا، ججز کا تبادلہ عوامی مفاد میں ہی ممکن ہے، ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ تبادلے عوامی مفاد میں کیے گئے ہیں، کسی بھی جج کو سزا دینے کیلئے تبادلے نہیں کیے جا سکتے،جسٹس شاہدحسن نے کہاکہ آپ کے مطابق تبادلہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے، عارضی نوعیت کے تبادلے کی مدت کتنی ہوگی منیراے ملک نے کہاکہ آئینی تاریخ کے مطابق تبادلے کی مدت دو سال ہوگی، جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ موجودہ آئین میں تو دو سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیرمعینہ مدت کیلئے ہوگا،منیراے ملک نے کہاکہ ججز کی مرضی کے بغیر تبادلہ ہو تو دو سال کی مدت لاگو ہوگی،جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ جج اپنی مرضی سے غیر معینہ مدت تک ٹرانسفر ہوسکتا ہے،منیراے ملک نے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی آسامیاں خالی تھیں،آرٹیکل 200 نے صدر مملکت کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تعیناتیاں کر سکے، آئین اور رولز میں طے شدہ ہے کہ جج کی خالی آسامی کیلئے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا،آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کیلئے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، ایسے تو ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں پر کرنے کیلئے صدر ہی اختیار استعمال کرتے رہیں گے،جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ آپکی دلیل یہ ہے کہ صدر مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں،آپ نے کہا مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے، جسٹس شاہدحسن نے کہاکہ: عدلیہ میں مجھے دو دہائیوں سے زیادہ وقت ہوچکا،آپ کو بھی چار دہائیوں سے زائد کا وقت ہو چکا ہے، ایک جج کی ساکھ کے بارے میں سب سے زیادہ گفتگو بار رومز میں ہوتی ہے،ایک جج آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرنے کا حلف اٹھاتا ہے، آپکو بتانا ہوگا یہ کیس عوامی مفاد کے تحت کیسے ہے، منیراے ملک نے کہاکہ ہائیکورٹ ججز خط کے حقائق کو بھی اس کیس میں دیکھا جائے،جسٹس محمدعلی مظہرنے کہاکہ وہ معاملہ جو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں اسے نہیں دیکھ سکتے،آپ اپنے دلائل میں جو کہنا چاہیں کہہ دیجیے گا،بعدازاں عدالت نے سماعت آج بدھ تک کے لیے ملتوی کردی منیراے ملک دلائل جاری رکھیں گے۔

Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات