Live Updates

بھارتی حکومت میڈیا کو دبانے کے لیے نوآبادیاتی دور کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، رپورٹ

ہفتہ 3 مئی 2025 21:00

پیرس (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مئی2025ء) آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں بھارت 180ممالک کی فہرست میں 151 ویں مقام پر ہے اوراس کا درجہ پڑوسی ممالک نیپال، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی نیچے ہے۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق آزادی صحافت پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ''رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز'' نے اپنی 2025کی رپورٹ میں کہا کہ آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں بھارت بہت سنگین زمرے میں شامل ہے۔

بھارت ان ممالک میں شامل ہے جہاں میڈیا کی ملکیت کا سیاسی طورپر طاقتور افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونا میڈیا کی آزادی کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔ تنظیم کے مطابق میڈیا کے کمزور ہونے کا ایک بڑا عنصر معاشی دبائو ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2014میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک کا میڈیا ایک غیر اعلان شدہ ایمرجنسی کی کیفیت میں چلا گیا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق مودی نے بی جے پی اور میڈیا پر چھائے بڑے خاندانوں کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کیے۔ رپورٹ کے مطابق صنعتکار مکیش امبانی 70سے زائد میڈیا آئوٹ لیٹس کے مالک ہیں، جنہیں کم از کم80 کروڑ بھارتی دیکھتے ہیں۔ امبانی کو مودی کا قریبی دوست بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح 2022میں اڈانی کے این ڈی ٹی وی کے حصول کو مین اسٹریم میڈیا میں تکثیریت کا خاتمہ قرار دیاگیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گوتم اڈانی کو بھی وزیراعظم کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔رپورٹرز ودآئووٹ بارڈز نے کہاکہ حالیہ برسوں میںگودی میڈیا(حکومت نواز میڈیا)کو عروج حاصل ہوا ہے جو عوامی جذبات اور بی جے پی کے پروپیگنڈا کو ملاتا ہے۔ دبائو اور اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت کا کثیرالطرفہ(پلورلسٹک)پریس ماڈل خطرے میں ہے۔ وزیراعظم پریس کانفرنس نہیں کرتے، صرف ان صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہیں جو ان کے حق میں ہوں اور ان لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو وفاداری نہیں دکھاتے۔

اس کے علاوہ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو بی جے پی سے منسلک ٹرولز کے ذریعے ہراساںکیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے حکومت میڈیا کو دبانے کے لیے نوآبادیاتی دور کے قوانین استعمال کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹی جن میںبغاوت، ہتک عزت اور ملک دشمن سرگرمیوں سے متعلق قوانین شامل ہیں جبکہ صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کا بھی بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ بھارت میںہر سال اوسطا دو سے تین صحافی اپنے کام کی وجہ سے مارے جاتے ہیں اوریہ ملک صحافیوںکے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنا، دھمکیاں دینا ، جسمانی حملوں کا نشانہ بنانا، ان کے خلاف مقدمات درج کرنااور بلاجواز گرفتارکرنا ایک معمول بن چکا ہے۔صحافیوں کو پولیس افسران ، سیاسی کارکنان، جرائم پیشہ گروہ اور بدعنوان مقامی عہدیدار تشدد کا نشانہ بنا تے ہیں۔
Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات