ڈیفنس تھانے میں وکلا اور پولیس کے تصادم کے بعد افسران کو توہین عدالت کے نوٹس جاری

عدالت کی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر مبینہ طور پر احتجاج کرنے والوں کو 6 مئی کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت

اتوار 4 مئی 2025 17:05

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2025ء)کراچی کی سیشن کورٹ نے قانون کے ایک طالب علم پر مبینہ طور پر تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے پر سینئر پولیس افسر اور دیگر مدعا علیہان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔تفصیلات کے مطابق عدالت نے جمعہ کے روز جاری کردہ حکم کی تعمیل نہ کرنے پر مبینہ طور پر احتجاج کرنے والوں کو 6 مئی کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت دی۔

درخواست گزار عابد حسین نے اپنے وکیل حسیب جمالی اور مزمل قریشی کے توسط سے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس(ایس ایس پی)جنوبی، اسٹیشن ہاس آفیسر(ایس ایچ او)اور ایڈیشنل ایس ایچ او ڈیفنس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔2 مئی کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (جنوبی)عبدالحفیظ لاشاری نے ایس ایچ او ڈیفنس کو سی آر پی سی کی دفعہ 154 کے تحت درخواست گزار کا بیان قلمبند کرنے کے بعد مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔

(جاری ہے)

اس سے قبل درخواست گزار نے مجوزہ ملزمان ایس ایچ او ڈیفنس اسرار بریرو، اے ایس آئی زاہد اقبال، کانسٹیبل زاہد جمشید، زاہد گجر اور رانا علیم کے خلاف مبینہ طور پر اپنے کزن شہباز علی خاصخیلی کو پولیس تحویل میں شدید زخمی کرنے کا مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔درخواست گزار نے عالت کوبتایا تھا کہ متاثرہ شہری قانون کا طالب علم ہے، جو 23 اپریل کو لاپتا ہوا تھا، اور اس کے روم میٹس نے بتایا کہ پولیس نے اسے ڈیفنس تھانے کے قریب ایک چائے کی دکان سے شہباز خاصخیلی کے ساتھ اٹھایا، اور ان پر تشدد کیا تھا، اور انہیں سندھی ڈاکو کا لیبل لگانے کے بعد گولی مار کر بعد میں نامعلوم مقام پر چھوڑ دیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ متاثرہ شخص شدید زخمی ہے، اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر(جے پی ایم سی)میں زیر علاج ہے۔پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ متاثرہ شہری کے کچھ روم میٹس کو مشکوک پاکر سی آر پی سی کی دفعہ 54 کے تحت گرفتار کیا تھا، تاہم بعد میں قانون کے 80 سے 90 طالب علم تھانے آئے اور فساد ات کا سہارا لیکر پولیس پر حملہ کر دیا تھا۔پولیس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ تھانے کی سرکاری املاک کو بچانے کے لیے پولیس نے اپنے دفاع میں لاٹھی چارج کیا، اور اس کے بعد مظاہرین کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار کے مطابق، متاثرہ شہباز خاصخیلی کو جے ایم پی سی میں شدید زخم، سر پر چوٹ، گولی کے زخم اور لوہے کی سلاخوں کی چوٹوں کے ساتھ لایا گیا، اور میڈیکل ریکارڈ بھی اسی کی عکاسی کرتا ہے، لیکن پولیس نے تشدد کے ذمہ داروں کیخلاف مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا۔عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرانا ہر متاثرہ شہری کا بنیادی حق ہے، تاکہ ریاست اس کی مدد کے لیے آگے آسکے، لیکن اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کے بارے میں پولیس کی رپورٹ، ڈیفنس پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایک پیشگی کیس ہے، جس میں فساد، نقصان پہنچانے اور افسروں پر حملہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

تاہم، عدالت نے کہا کہ متاثرہ کا نام ایف آئی آر سے غائب ہے، اس کے ہسپتال میں داخل ہونے، درخواست گزار کے تفصیلی الزامات اور حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس ایف آئی آر کے پیچھے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، جب کہ پولیس کا جوابی بیانیہ بھی مشکوک ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ پولیس کی استثنیٰ اور اختیارات کے غلط استعمال کے منظم مسائل کی نشاندہی کرتا ہے، ایف آئی آر میں شہباز خاصخیلی کی جان لیوا چوٹوں کے باوجود اس کا نام نہ ہونا جان بوجھ کر کچھ چھپانے کی نشاندہی کرتا ہے۔

عدالت نے کہا کہ الزامات کی سنگینی حقیقت کو سامنے لانے، احتساب کو یقینی بنانے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔دریں اثنا کراچی بار ایسوسی ایشن نے پولیس کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری طور پر ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔بار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ متاثرہ شہری بار کے رکن اصغر خاصخیلی ایڈووکیٹ کا بیٹا تھا۔

کے بی اے کے جنرل سیکریٹری رحمن کورائی نے بتایا کہ عدالتی حکم کے بعد درخواست گزار نے مختلف وکلا کے ہمراہ 2 مئی کو ڈیفنس تھانے سے رابطہ کیا تھا، لیکن انہوں نے دوبارہ مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد وکلا نے جمعہ کی رات کورنگی روڈ پر متعلقہ تھانے کے قریب دھرنا دیا، اور بعد میں سینئر پولیس افسران کی یقین دہانی پر منتشر ہوگئے۔رحمن کورائی نے کہا کہ کے بی اے نے عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنے پر پولیس افسران کو ہفتے کے روز سٹی کورٹ کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔