
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو درست قرار دےدیا
فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کوبھجوا دیا گیا‘ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے.عدالت کا فیصلہ
میاں محمد ندیم
بدھ 7 مئی 2025
15:41

(جاری ہے)
عدالت نے آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی جانے والی تینوں شقیں ٹو ون ڈی ،ٹو ڈی ٹو اور 59 فور کو بھی بحال کر دیا عدالت عظمی نے کہا کہ کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا جارہا ہے جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے معاملہ حکومت کوبھجوا دیا گیا، حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کیلئے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے تقریبا 5 ماہ تک جاری رہنے والی سماعتوں کے بعد 5 مئی کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا.
سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے لیے چھ دسمبر 2024 کو جسٹس امین الدین خان کی سرابراہی میں سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے نو دسمبر کو اپیلوں پر سماعت شروع کی تھی. مقدمے کی سماعت کے دوران آئینی عدالت نے 13 دسمبر 2024 کو نو مئی کے واقعات میں ملوث 85 ملزمان کے مقدمات کے فیصلے سنانے کی اجازت دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے عدالت کے اس فیصلے کے بعد فوجی عدالتوں نے پہلے مرحلے میں 21 دسمبر کو 20 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا سنائی تھی جبکہ 26 دسمبر کو عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی سمیت 60 ملزموں کو 10 سال تک قید کی سزا دی گئی تھی. دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے موقف احتیار کیا کہ آئین میں ایسی گنجائش موجود ہے جو سویلین کے کورٹ مارشل کی اجازت دیتی ہے اپیلوں کی سماعت کے دوران سات رکنی بینچ کی جانب سے یہ آبزرویشن بھی دی گئی کہ بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ یا اپیل کا معاملہ ان کے سامنے ہے ہی نہیں عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان اورسابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی درخواستوں پر سامنے آیا تھا. جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اکتوبر 2023 میں ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 103 شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کے اقدام کو خلاف قانون و آئین قرار دیا تھا سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائل کی اجازت دینے والی آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقوں کو ہی کالعدم قرار دے دیا تھا فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے نو اور دس مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 گرفتار افراد کی فہرست یا اس کے علاوہ بھی اگر کوئی عام شہری ان واقعات میں کسی بھی طرح ملوث ہیں تو ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا عدالت نے قرار دیا تھا کہ ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمات عام فوجداری عدالتوں کے سامنے چلائے جائیں گے. فیصلے کے مطابق ملک کے قانون کے تحت یہ عدالتیں خصوصی طور پر بھی قائم کی جا سکتی ہیں یا پہلے سے قائم عام عدالتیں بھی ان مقدمات پر سماعت کر سکتی ہیں عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ ملزمان کے مقدمات ان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے عدالتوں میں چلائے جائیں عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا بعدازاں سپریم کورٹ کے چھ رکنی بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں پانچ کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا سپریم کورٹ کے فیصلے کو وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کے علاوہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا تاہم 2024 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی اور اس نے اپنی اپیل واپس لے لی. وفاقی حکومت کی جانب سے نو مئی 2023 کے واقعات سے متعلق مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ان واقعات میں مظاہرین کی جانب سے فوجی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کرنے والوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی شامل ہیں. 20 جون 2023 کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی جانب سے عام شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عام عدالتوں کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اپنی درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیںکالعدم قرار دیا جائے. سابق چیف جسٹس کی جانب سے دائر کی گئی اس درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ان کا مقصد کسی جماعت یا ادارے کی حمایت یا حملے کو سپورٹ کرنا نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ ان کا اس مقدمے سے کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیںاس کے علاوہ مارچ 2024 میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی تھی.
مزید اہم خبریں
-
میگیل موراتینو اسلاموفوبیا کے خلاف یو این خصوصی نمائندہ مقرر
-
صدر جنرل اسمبلی کی انڈیا اور پاکستان سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل
-
کانگو: خانہ جنگی سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی تقسیم
-
سپریم کورٹ آئینی بنچ کے فیصلے نے آئینی عمارت منہدم کر دی
-
بھارت نے 24 میزائل مارے، ہمارے 30 شہداء کی جوابدہی کون کرے گا؟
-
بھارتی پراکیسز کے گرد گھیراتنگ ہوا تو بھارتی فوج خود میدان میں اتر آئی
-
پاکستانی شہدا کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی، اس وقت 57 افراد زخمی ہیں
-
معصوم شہریوں کے خون کے آخری قطرے تک کا حساب لیا جائے گا
-
بھارت نے جارحیت کرکے جو فاش غلطی کی اب اس کو خمیازہ ضرور بھگتنا ہوگا
-
غزہ: بے گھروں کے ٹھکانے پر دوہرے اسرائیلی حملے کو خوفناک تفصیلات
-
فرانسیسی انٹیلی جنس اہلکار کی بھارت کے زیراستعمال رافیل طیارہ مار گرانے کی تصدیق
-
وزیراعلیٰ پنجاب کی شہریوں کو گھروں سے غیر ضروری باہر نہ نکلنے کی ہدایت
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.