Live Updates

جنگ زدہ غزہ کے طلبا کی مصوری میں چہرے غائب، گھر تباہ

یو این بدھ 14 مئی 2025 03:45

جنگ زدہ غزہ کے طلبا کی مصوری میں چہرے غائب، گھر تباہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 مئی 2025ء) غزہ کی جنگ نے کتنے ہی معصوم چہروں کو اداسی کی چادر میں لپیٹ دیا اور کتنے ہی بھرے پُرے گھروں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں بے گھر فلسطینی بچے مصوری کے ذریعے اپنے درد اور دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے زیراہتمام ان بچوں کے لیے نفسیاتی سماجی معاونت کی نشستوں میں نوعمر فنکار جو تصاویر اور خاکے بنا رہے ہیں وہ محض رنگوں کا امتزاج نہیں، بلکہ ان پر گزرنے والی قیامت کی عکاسی ہے۔

ان کی بنائی تصویروں میں کہیں کسی فلسطینی شاعر کا غمزدہ چہرہ ہے، تو کہیں ان پیاروں کا عکس ہے جنہیں جنگ نے ان سے چھین لیا۔ کسی کینوس پر بمباری سے سیاہ ہوتا آسمان نظر آتا ہے تو کوئی تصویر تصویر ماں کی بے جان لاش پر روتے معصوم بچے کی عکاسی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

دل ہلا دینے والی یہ تصاویر ان دنوں غزہ شہر میں 'انروا' کے ریمال سکول میں آویزاں ہیں، جو اب ان بے سہارا بچوں کی عارضی پناہ گاہ ہے۔

یادوں کی کسک اور بچھڑنے کا غم

یہ تصویری نمائش ان بچوں اور نوجوانوں کو تقریباً اٹھارہ ماہ کی طویل جنگ کے بعد اپنے جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے سے بات چیت کر کے اپنے دکھ کو بانٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

شمالی غزہ کے علاقے بیت حنون سے بے گھر ہونے والی فاطمہ الزعانین یو این نیوز کے نمائندے کو اپنی بنائی ایک تصویر کے بارے میں بتاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔

'میں نے فلسطینی شاعر محمود درویش کی تصویر بنائی، اور یہ دیکھیے، یہ میری ماں ہیں، یہ میرے بابا، یہ میری بہن اور یہ میرے دادا۔' یہ کہتے ہوئے ان کی آواز شدت غم سے رندھ گئی۔

میں اس جنگ میں جو کچھ بھی سہہ چکی ہوں، اس کے بعد اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔ نعمت حبیب

یہ کہتے ہوئے فاطمہ کی زبان لڑکھڑائی اور وہ ایک مرتبہ پھر رونے لگیں۔

انہوں نے پینسل سے بنی ایک چھوٹی سی ڈرائنگ کو دیکھا جس پر سرخ دھبے یوں بکھرے تھے جیسے کسی گہرے زخم سے خون رس رہا ہو۔ 'یہ میں نے ان شہیدوں کے جسم بنائے ہیں جنہیں ظالموں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔' یہ کہتے ہوئے ان کی معصوم آواز میں درد کی ایک لہر واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔

انہوں نے اپنی چھوٹی سی انگلی سے محمد نامی ایک لڑکے کی بنائی تصویر کی جانب اشارہ کیا اور کہنے لگیں 'اس کی بس یہی آرزو تھی کہ اس کے خاندان میں کوئی ایک فرد ہی باقی رہ جائے، لیکن اب تو کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔

' انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے ایک تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا 'اور یہ دیکھیے، یہ وہ بچہ ہے جو اپنی ماں کے لیے بین کر رہا ہے، جسے اس نے ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔'

'انروا' کے نفسیاتی سماجی معاونت مرکز کی ایک ماہر فاطمہ کے قریب کھڑی اس دردناک اظہار پر ان کی ہمت کو داد دے رہی تھیں۔

UN News
سترہ سالہ طالبہ نعمت حبیب نے اپنی ماں کی تصویر بنائی جو انہوں نے حالیہ جنگ میں کھو دی۔

تسکین قلوب کی دعا

سترہ سالہ طالبہ نعمت حبیب نے اپنی ایک تصویر کو آہستگی سے چھوتے ہوئے بتایا 'یہ میرہ والدہ کا چہرہ ہے جنہیں اس جنگ نے مجھ سے چھین لیا۔ میں ان کے بچھڑنے کے غم سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ سبھی ان کے لیے دعا کریں۔'

نعمت کی انگلیاں اس تصویر پر یوں حرکت کر رہی تھیں جیسے وہ اپنی ماں کے چہرے کو چھونا چاہتی ہوں۔

'خدا مجھے انہیں اور اپنے بہن بھائیوں کے کھو جانے کا صدمہ سہنے کی ہمت عطا فرمائے۔' یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔

اس موقع پر انہوں نے نفسیاتی سماجی معاونت فراہم کرنے والی ٹیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہی کی وجہ سے انہیں اپنے درد کو فن کی زبانی دینے کی طاقت ملی۔

غزہ کی اس جنگ نے لوگوں سے بہتر مستقبل کی تمام امیدیں چھین لی ہیں۔

ملک ابو عودہ

یہ بات کرتے ہوئے وہ ایک مرتبہ پھر غمزدہ ہو گئیں اور مزید کچھ بول نہ پائیں۔ اس موقع پر ٹیم کے ایک رکن نے انہیں پیار سے گلے لگایا تو وہ قدرے پرسکون ہوئیں اور بتایا کہ اس پناہ گاہ میں مہیا کی جانے والی نفسیاتی مدد کی بدولت ہی وہ اپنی تعلیم جاری رکھ پا رہی ہیں۔

'میں اس جنگ میں جو کچھ بھی سہہ چکی ہوں، اس کے بعد اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں۔

میں محنت کر کے وہ بننا چاہتی ہوں جو میری ماں میرے لیے چاہتی تھیں۔' یہ کہتے ہوئے ان کے لہجے میں دکھ کے ساتھ عزم و امید کا اظہار بھی تھا۔

خزاں رسیدہ زندگی، شکستہ امیدیں

ملک فیاد نامی ایک طالب علم کی بنائی تصاویر بھی اس سکول میں آویزاں ہیں۔ ایک تصویر میں غزہ کا صاف نیلا آسمان اور سمندر، درخت اور پرندے نظر آتے ہیں۔ دراصل یہ اس تصویر کی نقل ہے جو کبھی ان کے خاندانی گھر کی دیوار پر آویزاں تھی۔

انہوں نے بتایا کہ جنگ میں وہ گھر ان کے تمام قیمتی سامان سمیت ملبے کا ڈھیر بن گیا جس میں وہ تصویر بھی گم ہو گئی ہیں جو انہیں بہت عزیز تھی۔

'میں نے اسے دوبارہ اس لیے بنایا تاکہ مجھے یاد رہے کہ غزہ کبھی کس قدر خوبصورت ہوا کرتا تھا، اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک اور تصویر بھی بنائی ہے جس میں آسمان پر بموں سے پیدا ہونے والا دھواں دکھائی دیتا ہے۔

' انہوں نے اپنی دیگر تخلیقات کی طرف اشارہ کیا، جن میں ایک تصویر یہ ظاہر کرتی ہے کہ بمباری اور تباہی کے بعد غزہ کے باسیوں کی زندگیاں کس قدر تبدیل ہو گئی ہیں۔

ان کی ایک اور تصویر میں ایک فلسطینی مرد کو دکھایا گیا ہے جو اپنے کندھے پر گھر کی شکل کا بیگ اٹھائے ہوئے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تصویر اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ فلسطینی ہمیشہ اپنے ساتھ اپنے وطن کا درد لیے پھرتا ہے، چاہے وہ بے گھر ہی کیوں نہ ہو جائے۔

ایک اور نوعمر فنکار ملک ابو عودہ نے دکھی لہجے میں بتایا کہ غزہ کی اس جنگ نے لوگوں سے بہتر مستقبل کی تمام امیدیں چھین لی ہیں۔

'جنگ میں ہمیں صرف تباہی اور بے گھری کا سامنا ہی نہیں، بلکہ اس نے ہم سے ہمارے پیارے لوگ، ہمارے رشتہ دار اور ہمارے چاہنے والے بھی چھین لیے ہیں۔ ہماری حالت اچھی نہیں لیکن ہم ذہنی صحت کے ماہرین کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں تفریح فراہم کرنے، ہماری مدد کرنے اور ہمیں سہارا دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

'

UN News
ملک فیاد بتا رہی ہیں کہ جنگ میں ان کا گھر قیمتی سامان سمیت ملبے کا ڈھیر بن گیا جس میں وہ تصویر بھی گم ہو گئی ہیں جو انہیں بہت عزیز تھی۔

مدد کی فراہمی کا عزم

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا امدادی ادارہ 'انروا' غزہ میں متواتر نفسیاتی سماجی معاونت کی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ادارے کے مطابق اس کی ٹیموں نے 21 سے 27 اپریل کے درمیان تقریباً تین ہزار معاملات میں مدد فراہم کی۔ اس میں طبی مراکز، فوری طبی امداد فراہم کرنے مقامات پر دی جانے والی صحت کی خدمات، پناہ گاہوں میں انفرادی مشاورت، آگاہی بیدار کرنے کے پروگرام اور صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے واقعات پر ردعمل شامل ہے۔

غزہ کے معصوم بچوں کی بنائی تصاویر سے ان کے حوصلے اور فن کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے جو اپنے دکھوں کو رنگوں میں ڈھال کر اپنی خاموش چیخیں دنیا کے کانوں تک پہنچا رہے ہیں۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات