عدالت کا پنجاب حکومت کو سیف سٹی کے تمام کیمرے فعال کرنے کا حکم

ترقیاتی منصوبوں کے دوران کھدائی میں کیبلز کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر اقدامات بھی کیے جائیں، لاہورہائیکورٹ

Faizan Hashmi فیضان ہاشمی جمعہ 22 اگست 2025 10:57

عدالت کا پنجاب حکومت کو سیف سٹی کے تمام کیمرے فعال کرنے کا حکم
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 اگست2025ء)  لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو حکم دیا ہے کہ صوبے بھر میں سیف سٹی کے تمام کیمرے فوری طور پر فعال کیے جائیں اور ترقیاتی منصوبوں کے دوران کھدائی میں کیبلز کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے ناصرہ اشفاق کی درخواست پر 21 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس طارق سلیم شیخ کی جانب سے جاری کیا۔

فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ سیف سٹی اتھارٹی کسی بھی انفرادی شخص کو ویڈیوز فراہم کرنے کی مجاز نہیں، صرف تفتیشی ادارے، عدالت یا متعلقہ اتھارٹی کو ہی فوٹیجز دی جا سکتی ہیں، عدالت نے خاتون کو شوہر کی گرفتاری کی فوٹیجز فراہم نہ کرنے کے اقدام کو درست قرار دیا۔

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بطور چیئرپرسن سیف سٹی اتھارٹی کمشنر لاہور کو فوکل پرسن مقرر کیا تھا جنہوں نے مختلف اجلاسوں میں اس بات کی نشاندہی کی کہ ایل ڈی اے، پی ایچ اے اور ایم سی ایل کے ترقیاتی کاموں کے دوران سیف سٹی کی فائبر آپٹک کیبلز کو بار بار نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ہدایت دی گئی تھی کہ کوئی بھی ادارہ ترقیاتی کاموں سے پہلے سیف سٹی سے اجازت لے تاہم عدالت کے علم میں آیا کہ ان احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ اس کے شوہر محمد اشفاق کو پولیس نے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا، خاتون کے مطابق پولیس اہلکاروں نے شوہر کو اغوا کیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور رہائی کے عوض بھاری رقم طلب کی، خاتون نے پولیس کو وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز اور کال ریکارڈ فراہم کرنے کی درخواست دی مگر عملدرآمد نہ ہوا، بعد ازاں سیف سٹی سے بھی فوٹیجز مانگی گئیں لیکن درخواست مسترد کر دی گئی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ آئین کے تحت معلومات تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق ہے تاہم یہ حق مطلق نہیں، قومی سلامتی اور دیگر قانونی حدود اس پر لاگو ہوتی ہیں، پنجاب اسمبلی نے 2016 میں سیف سٹی ایکٹ منظور کیا جس کے تحت فوٹیجز صرف تفتیشی یا عدالتی استعمال کے لیے دی جا سکتی ہیں، کسی نجی فرد کو نہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کے رویے میں بددیانتی کی متعدد مثالیں سامنے آتی ہیں اور موجودہ کیس بھی اسی کا مظہر ہے تاہم درخواست گزار کے پاس پولیس آرڈر 2002 کے تحت دیگر قانونی آپشنز موجود تھے جن سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، عدالت نے قرار دیا کہ جسٹس آف پیس کو تفتیشی افسر کو ہدایت دینی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ درخواست گزار نے فوٹیج کے حصول کی درخواست واقعے کے دو ماہ بعد دی، اس دوران ریکارڈ ضائع ہو چکا تھا، لہٰذا درخواست خارج کی جاتی ہے۔