دنیا کو اقوام متحدہ اور امن کاری کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ، گوتیرش

یو این جمعرات 15 مئی 2025 03:00

دنیا کو اقوام متحدہ اور امن کاری کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں امن کارروائیوں پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور انہیں دور حاضر کے ابھرتے ہوئے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ مسلح تنازعات کا شکار خطوں میں اقوام متحدہ کے امن کاروں کی حیثیت زندگی اور موت کے درمیان فرق کی سی ہے۔

دنیا کو اقوام متحدہ کی اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور ادارے کو ناصرف آج کی حقیقتوں بلکہ مستقبل کے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے بھی پوری طرح تیار ہونا ہو گا۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل نے یہ بات اقوام متحدہ کی امن کاری پر جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقدہ وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر 130 سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی شراکت داروں نے دنیا بھر میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کے کردار کی حمایت اور اس کام میں تعاون کا عزم کیا۔

امن کاری میں تعاون کا عزم

دو روزہ کانفرنس میں رکن ممالک کے وزرائے دفاع و خارجہ سمیت 1,000 سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی۔ اس دوران انہوں اقوام متحدہ کی امن کاری میں تعاون کے لیے بہت سے وعدے کیے جن میں اس کام کے لیے فوج اور پولیس کے 88 یونٹ مہیا کرنے، امن کاروں کو خصوصی تربیت کی فراہمی اور امن مشن کو نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا بھی شامل ہے۔

جرمنی نے جنوبی سوڈان، لبنان اور افریقی خطے مغربی صحارا میں اقوام متحدہ کی امن کارروائیوں کے لیے اپنے فوجی دستے بھیج رکھے ہیں۔ اس نے امن کاری کے لیے 82 ملین ڈالر، قابل تجدید توانائی کے ذرائع اور ٹیکنالوجی مہیا کرنے کے علاوہ امن کاروں کی تربیت کے وعدے بھی کیے۔

جرمنی کے وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اقوام متحدہ کی امن کاری کا ثابت قدم حامی ہے۔

رکن ممالک کے وعدے

اجلاس میں اقوام متحدہ کے 74 رکن ممالک نے امن کارروائیوں کے لیے فوجی دستے بھیجنے، تزویراتی مدد مہیا کرنے اور امن کاروں کی تربیت کے وعدے کیے۔

ان میں 53 ممالک کی جانب سے فوج اور پولیس کے مزید یونٹ مہیا کرنے کے علاوہ ایئر لفٹ کی فراہمی اور بحران زدہ علاقوں میں فوجی دستوں کی تیز رفتار تعیناتی، 59 ممالک کی جانب سے امن کاروں کو خصوصی تربیت کی فراہمی، 18 ممالک کی طرف سے امن کاری کے لیے درکار ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے میں معاونت، 38 ممالک کی جانب سے خواتین، امن اور سلامتی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مدد دینے اور 16 ممالک کی طرف سے امن کاروں کے لیے تحفظ کی فراہمی میں تعاون کے وعدے بھی شامل ہیں۔

11 ممالک نے امن کاروں کے احتساب اور ان کے طرزعمل کو بہتر بنانے اور جنسی استحصال اور بدسلوکی کے متاثرین کے لیے قائم کیے جانے والے ٹرسٹ فنڈ میں مالی مد دینے کے وعدے کیے۔ آٹھ ممالک نے غلط اور گمراہ کن اطلاعات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں میں مدد دینے کا عزم کیا۔

سلامتی کے خطرات اور گمراہ کن مہمات

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امن کار پیچیدہ اور خطرناک ماحول میں کام کرتے ہیں جنہیں مسلح تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں ڈرون اور دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کی مہمات زور پکڑ رہی ہیں۔

ان حالات میں امن کارروائیوں کی انجام دہی کے حوالے سے سرکاری ہدایات، قوانین یا احکامات کے حوالے سے کچھ سخت سوالات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہر جگہ حالات مختلف ہوتے ہیں اور امن کارروائیوں کو ان کے مطابق ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے امن کاری کے لیے مالی وسائل کی پائیدار طور سے فراہمی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کئی مشن ایسے بھی ہیں جنہیں رکن ممالک کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث مالی مشکلات کا سامنا ہے۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں تمام ممالک کو اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو اپنے واجبات مکمل اور بروقت ادا کرنا چاہئیں۔

امن کاری میں اصلاحات

اس اجلاس سے اقوام متحدہ میں وسیع تر اصلاحات بشمول گزشتہ سال طے پانے والے معاہدہ برائے مستقبل میں امن کارروائیوں کے حوالے سے جاری جائزے میں بھی مدد ملے گی جس کا مقصد امن کاری کو ہر طرح کے حالات کے مطابق ڈھالنا، اسے کم خرچ بنانا اور حقیقی دنیا کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

یہ اجلاس ایسے موقع پر ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے قیام کو 80 اور امن کاری پر ادارے کی پہلی کانفرنس کو 10 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ قبل ازیں، عکرہ، سیئول، وینکوور اور لندن میں بھی ایسے ہی اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔

امن کاری کا شمار اقوام متحدہ کی نمایاں ترین سرگرمیوں میں ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں قیام امن کے لیے ادارے کے 11 مشن کام کر رہے ہیں جن کے لیے 119 ممالک نے اپنے 61 ہزار فوجی بھیج رکھے ہیں جنہیں 7,000 سے زیادہ غیرفوجی اہلکاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔