مرحوم فلسطینی فوٹوگرافر فاطمہ حسونہ کی غزہ میں مصائب پر فلم کی کانز میلے میں نمائش

فلم کی نمائش کے دوران حاضرین نے آنسوئوں اور طویل وقت تک تالیوں سے فلم کی تحسین کی،رپورٹ

جمعہ 16 مئی 2025 19:07

کان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مئی2025ء)جنوبی فرانس کے شہر "کان" میں جاری دنیا کے معتبر ترین فلمی میلے میں اس بار فلسطینیوں کے زخم بول اٹھے، جب معروف ایرانی فلم ساز سپیدہ فارسی نے اپنے دستاویزی فلم "اپنی روح ہتھیلی پر رکھو اور چل پڑو" کی نمائش کے دوران غزہ کی نوجوان فلسطینی فوٹوگرافر فاطمہ حسونہ کی تصویر تھام کر بھرائی آواز میں حاضرین سے مخاطب ہوئیں۔

عرب ٹی وی کے مطابق سپیدہ نے کہاکہ "فاطمہ کو آج یہاں ہمارے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ وہ میرے اس فلمی منصوبے کا مرکزی کردار تھی، جسے آج کانز میں دکھایا جا رہا ہے لیکن قابض اسرائیل کی بمباری نے نہ صرف ایک باہمت فنکارہ بلکہ اس کے دس اہل خانہ کو بھی ہم سے چھین لیا۔ اب اس کی ماں تنہا زندہ ہے، باقی سب لاشوں میں بدل چکے ہیں"۔

(جاری ہے)

پچیس برس کی فاطمہ حسونہ ایک نڈر اور باصلاحیت فلسطینی صحافی تھیں جنہوں نے جنگ زدہ غزہ کی حقیقت کو اپنی کیمرہ آنکھ سے دنیا کے سامنے لانے کا عہد کیا تھا۔

خطرات کے باوجود وہ میدان میں ڈٹی رہیں اور غزہ کے معصوم باسیوں کی روزمرہ اذیت کو تصویروں میں قید کرتی رہیں ۔ وہ تصویریں جو دنیا کو فلسطین کی کہانی سناتی تھیں۔سپیدہ فارسی نے بھرائی آواز میں کہاکہ "ہماری انسانیت ان قتل عام سے مسخ ہو چکی ہے۔ اسرائیلی فوج کی کوشش ہے کہ وہ ہر تخلیقی اور زندہ روح کو خاموش کر دے۔ لیکن اگر ہم خاموش رہے،تو اس ظلم کے شریک بن جائیں گی"۔

فاطمہ کے اسرائیلی بمباری میں قتل پر سینما کی دنیا بھی خاموش نہ رہ سکی۔ فرانس کی وزیر ثقافت رشیدہ داتی نے کہاکہ "فلمی ستاروں نے جس کھلے خط دستخط کیے وہ ان کا فریضہ ہے۔ فنکاروں کا کام صرف فلم بنانا نہیں، دنیا کے ضمیر کو جگانا بھی ہی"۔جولیت بینوش کانز فلم فیسٹیول کی جیوری کمیٹی کی صدر ہیں۔ انہوں نے فاطمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ "وہ یہاں ہمارے درمیان ہونی چاہیے تھی۔

فن ہی زندگی اور خوابوں کی سچی گواہی ہوتا ہی"۔اس موقع پر دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 380 سے زائد فلم سازوں، ہدایت کاروں اور فنکاروں نے ایک کھلا خط جاری کیا جس میں غزہ میں جاری نسل کشی کی شدید مذمت کی گئی۔ خط میں فاطمہ حسونہ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ دنیا کو غزہ میں جاری انسانی المیے پر آواز بلند کرنی چاہیے۔فلسطینی فلمی ادارے کے مشیر مہند الیعقوبی نے واضح الفاظ میں کہاکہ "فاطمہ کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ تصویر بناتی تھی۔

قابض اسرائیل فنکار فلسطینیوں کو خاموش کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغربی ثقافتی ادارے اس قتل کو کیوں محض ایک واقعہ مانتے ہیں، بطور 'قتلِ فن' کیوں نہیں دیکھتی"اس موقع پر سپیدہ فارسی نے ایک پکار کی صورت میں کہاکہ "غزہ میں بچوں اور خواتین کا قتل بند ہونا چاہیے ان کا بھوکا مرنا بند ہونا چاہیے۔ محض اس لیے کہ وہ تصویر لے رہے تھی ہم خاموش رہے تو کل ہماری باری ہوگی"۔