Live Updates

’جنگی جنون ادیبوں پر بھی طاری ہو جائے تو خیر کی آواز کہاں سے آئے گی‘

DW ڈی ڈبلیو بدھ 21 مئی 2025 17:20

’جنگی جنون ادیبوں پر بھی طاری ہو جائے تو خیر کی آواز کہاں سے آئے گی‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) جاوید اختر کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جو سرحد کے دونوں طرف مقبول ہیں۔ ان کا ایک حالیہ بیان پاکستان میں شدید تنقید کی زد میں ہے جس میں وہ پاکستان کی بجائے جہنم کو ترجیح دینے کی بات کرتے ہیں۔ انڈین ادیبوں کا خیال ہے کہ جاوید اختر کی بات کا پس منظر نہیں سمجھا گیا جبکہ پاکستانی لکھاری اسے 'افسوس ناک‘ اور 'جنگی جنون‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔

پاک بھارت کشیدگی بظاہر تھم چکی لیکن سوشل میڈیا پر لفظوں کی جنگ برابر جاری ہے جس کے اثرات کی نشاندہی جاوید اختر کے ایک متنازعہ بیان اور اس پر آنے والے ردعمل سے ہو رہی ہے۔

جاوید اختر کا بیان، پاکستان اور بھارت کے ادیبوں کا ردعمل

چند روز پہلے سوشل میڈیا پر جاوید اختر کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں بہت پذیرائی ملی لیکن وہ ہمیشہ دونوں طرف کے انتہا پسندوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے بقول، ”ایک جانب وہ کہتے ہیں کہ آپ کافر ہیں اور جہنم میں جائیں گے اور دوسری طرف والے کہتے ہیں کہ آپ جہادی ہیں پاکستان چلے جائیں۔ اب اگر میرے پاس صرف دو راستے ہوں تو میں جہنم جانے کو ترجیح دوں گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے معروف شاعر افتخار عارف کہتے ہیں، ”ادیب اور شاعر تو امن کی بات کرتے ہیں۔

خاص طور پر کسی ترقی پسند لکھنے والے سے ایسی بات سننا بہت افسوس ناک ہے۔‘‘

کم و بیش ایک درجن کتابوں کے مصنف اختر عثمان عہد حاضر کے بڑے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ترقی پسند تو ساحر کی روایت کے امین ہیں، جو جنگ کو مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ کون ہیں جو پاکستان کو جہنم کہتے اور اپنے ایک اور بیان میں یہاں حملے کی بات کرتے ہیں۔

یہ جنگی جنون ادیبوں پر بھی طاری ہو جائے تو خیر کی آواز کہاں سے آئے گی؟‘‘

پاکستان میں مختلف ادیبوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جاوید اختر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جن میں سے اکثر افسوس کا اظہار کرتے نظر آئے کہ پاکستان میں ہمیشہ انہیں اتنی عزت ملی مگر اب وہ اس ملک کو جہنم سے بدتر کہہ رہے ہیں۔

اس حوالے سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارت میں نئی نسل کے ممتاز شاعر اور ادیب تصنیف حیدر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”میں کسی ملک کو جہنم سے تشبیہ نہیں دے سکتا، کسی بھی خطے کے لوگ بطور انسان میرے وجود کا حصہ ہیں۔

جاوید اختر کی بات پر جیسا ردعمل آیا اس سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور ادیب دونوں نے پس منظر کو نظر انداز کیا۔‘‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”جب بھی پاکستان میں ہندوؤں کے خلاف نفرت کی بات کی جاتی ہے اس کی قیمت یہاں کے مسلمانوں کو چکانا پڑتی ہے۔ پاکستان کے طاقتور ترین شخص میڈیا پر کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔

کیا اس کے جواب میں ہمارے شاعروں اور ادیبوں کا پوچھنا نہیں بنتا کہ پھر بھارت میں اٹھارہ کروڑ مسلمان کیسے رہ رہے ہیں؟‘‘

وہ کہتے ہیں، ”ادیب اور شاعر کو اپنے ملک میں جاری انتہا پسندی کے خلاف بھی آواز اٹھانی چاہیے۔ کیا جاوید اختر ہندوتوا کے خلاف نہیں بولتے؟ پاکستان میں اتنی بڑی سطح پر یہ کام کونسا ادیب کر رہا ہے؟‘‘

جنگ کے ماحول میں ادیب کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

پروفیسر اریندر سنگھ امرتسر کی گرونانک یونیورسٹی میں ادب کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

جن میں سے دو کتابیں غزل گائیک غلام علی اور نصرت فتح علی خان کی زندگی اور فن پر بھی شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اریندر سنگھ کہتے ہیں کہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ جنگ کے ماحول میں ادیبوں کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ان کے خیال میں، ”ادیبوں کو جذبات کی رو میں بہتے ہوئے جنگ کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں نفرت، تعصب اور انتقام کے بیانیے کو تقویت دینے کی بجائے امن، مکالمے اور ہمدردی کو فروغ دینا چاہیے۔

ادیب کا کام محض حالات کی ترجمانی نہیں بلکہ رہنمائی بھی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انجمن ترقی پسند مصنفین کے سابق سیکرٹری اور ورلڈ پوئیٹری موومنٹ کے پاکستان میں نمائندہ امداد آکاش کہتے ہیں، ”جنگیں کئی نسلیں کھا جاتی ہیں۔ ادیب کو جنگ کے نعرے لگانے کی بجائے ان چہروں کو دکھانا چاہیے جو جنگ کی قیمت چکاتے ہیں، وہ بچے، عورتیں، عام شہری اور سپاہی جن کے خواب، جسم اور زندگیاں میدان جنگ میں چیتھڑے بن جاتی ہیں۔

ادیب کا فرض ہے کہ وہ طاقت کے مراکز کی بجائے عام انسان کا درد بیان کرے اور امن کو ممکن بنانے کے لیے شعور، سوال اور مکالمے کو زندہ رکھے۔‘‘

افتخار عارف کہتے ہیں، ”جنگ کے دوران ادیب کو لکھتے ہوئے ساحر جیسی دردمندی سے کام لینا چاہیے۔ ساحر نے کہا تھا کہ جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف بھوک کی فصل پروان چڑھے گی، خون جس طرف بھی بہے اس کی رنگت ایک ہے، وہ انسانیت کا خون ہے۔

‘‘

تہذیبیں جنگ سے نہیں، مکالمے سے فروغ پاتی ہیں

اختر عثمان کہتے ہیں ہمارا کلاسیکی لٹریچر ہند مسلم تہذیب سے پھوٹتا ہے جو صدیوں پر محیط ایک عظیم تہذیبی امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کے بقول، ”مغل دور سے لے کر آزادی سے پہلے کے ہندوستان تک، زبان، لباس، خوراک، شاعری، موسیقی اور فن تعمیر سب میں اس تہذیب کے رنگ نمایاں رہے۔

‘‘

تصنیف حیدر کہتے ہیں یہ تسلسل برقرار ہے، یہ ہمارا مشترکہ ماضی ہے جسے جنگ اور امن کے ماحول میں ادیبوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ”ادب اس کا محض ایک پہلو ہے، آپ موسیقی کو دیکھ لیں، لتا ہوں یا مہدی حسن خان، نصرت ہوں یا جگجیت سنگھ، جب فن کلام کرتا ہے تب سرحدیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہی مشترکہ تہذیب ہمیں آپس میں جوڑتی ہے۔

بطور ادیب ہم اس تہذیب کے وارث ہیں۔ تہذیبیں جنگ سے نہیں، مکالمے سے بچتی ہیں اور فنون لطیفہ اس مکالمے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔‘‘

پروفیسر اریندر سنگھ کہتے ہیں، ”یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ادیب پہلے جیسے موثر نہیں رہے۔ میں نے تقسیم نہیں دیکھی لیکن اپنی والدہ کو روتے دیکھا۔ میں ان کا درد سمجھ سکتا ہوں لیکن آج میں اپنی والدہ کے آبائی گاؤں کو یاد کر کے رو دوں تو میرے بچے ہنستے ہیں۔

ہمارا واسطہ ایک بے رحم نسل سے ہے جو آرٹ اور جذبات کو خاص اہمیت نہیں دیتی یا مختلف انداز میں دیکھتی ہے۔ اس لیے آج ادیب اور شاعر کی ذمہ داری زیادہ سخت ہے، اسے ٹیکنالوجی کے دور میں جذبات کا بیج بونا ہے، اسے قوم پرستی کی دھند میں انسان دوستی کا راستہ واضح کرنا ہے۔ اسے ہندو مسلم تفریق کے درمیان ہند مسلم تہذیب کا دیا روشن رکھنا ہے۔‘‘

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات