اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) روس نے کہا ہے کہ یوکرین کی جانب سے یورپی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے روس کے اندر طویل فاصلے تک حملوں کے بارے میں جرمن چانسلر فریڈرش میرس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ بہت پہلے کیا جا چکا تھا لیکن اسے خفیہ رکھا گیا تھا۔
میرس نے پیر 26 مئی کو کہا تھا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کی جانب سے یوکرین کو فراہم کیے جانے والے ہتھیاروں کے استعمال پر اب رینج یا فاصلے سے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے اور یوکرین اب 'طویل فاصلے تک فائر‘ کر سکتا ہے۔
تاہم میرس کے ریمارکس واضح نہیں تھے کیونکہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یوکرین کچھ عرصہ پہلے تک ایسا کرنے سے قاصر تھا۔
(جاری ہے)
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یہ بیانات ان لوگوں کی قابلیت کی نشاندہی کرتے ہیں، جو سرکردہ یورپی ممالک میں برسراقتدار آئے ہیں۔
لاوروف نے ماسکو میں ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا، ''انہوں (میرس) نے کل دکھاوے کے ساتھ کہا کہ اب سے اور ہمیشہ کے لیے حملوں کی رینج پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
‘‘لاوروف نے کہا کہ دیگر جرمن حکام کے بیانات بظاہر چانسلر کے بیان سے مختلف ہیں اور اس طرح کے متضاد اشارے ماسکو کو یہ پتہ دیتے ہیں کہ یورپی طاقتوں نے بہت پہلے یوکرین کو یورپی میزائلوں کے ذریعے روس کے اندر دور تک مار کرنے والے حملے کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس فیصلے کو ''خفیہ رکھا گیا تھا۔‘‘
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر یورپی رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے ابہام پیدا ہوا ہے لیکن اگر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل داغنے کی اجازت دی گئی تو یہ 'کشیدگی میں اضافے‘ کے مترادف ہوگا۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اگر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی طرف سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے مغربی ہتھیاروں کے ذریعے روس کے اندر دور تک حملوں کی اجازت دی گئی، تو وہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے روایتی میزائل تعینات کر سکتا ہے۔
نومبر میں یوکرین کی جانب سے روس پر امریکی 'اے ٹی اے سی ایم ایس‘، برٹش 'اسٹارم شیڈوز‘ اور امریکی 'ہیمارس‘ میزائلوں کے حملوں کے بعد روس نے اپنے نئے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل کا استعمال کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
یوکرین نے اپنے مغربی اتحادیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسے روس کے اندر طویل فاصلوں تک حملہ کرنے کی اجازت دے دیں اور اسے مزید ہتھیار فراہم کریں، حالانکہ امریکہ اور کچھ یورپی طاقتوں کو شک تھا کہ طویل فاصلے تک کیے جانے والے ایسے حملے جنگ کا رخ بدل سکتے ہیں اور وہ اس جنگ کو مغرب اور روس کے درمیان ایک مکمل تصادم میں تبدیل کرنے کے بارے میں محتاط تھے۔
روس کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال پر لاوروف نے کہا کہ یہ امریکی صدر کی طرف سے جذبات کا اظہار تھا کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یورپی سیاست دانوں کی جانب سے یوکرین میں امن کے لیے ان کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے۔
روئٹرز، اے ایف پی کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک