اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مئی 2025ء) مین ہٹن، نیویارک میں واقع امریکی وفاقی تجارتی عدالت نے بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہنگامی اختیارات کے قانون کے تحت درآمدات پر بڑے پیمانے پر محصولات عائد کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ ٹرمپ نے ان ممالک سے، جو امریکہ سے اشیاء خریدنے سے زیادہ اسے فروخت کرتی ہیں، درآمدات پر عمومی ڈیوٹی لگا کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
ٹرمپ نے یورپی یونین پر مجوزہ 50 فیصد محصولات فی الحال معطل کر دیے
ٹرمپ نے 2 اپریل کو عمومی ٹیرف کا اعلان کیا تھا، جس سے عالمی تجارت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گئی۔
عدالت میں تین ججوں کے پینل کی جانب سے یہ فیصلہ متعدد مقدمات کے بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا، تجارتی پالیسی کو اپنی خواہشات کے تابع بنا دیا اور معاشی افراتفری کو جنم دیا۔
(جاری ہے)
فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
امریکی محصولات کو عام طور پر کانگریس سے منظور ہونا ضروری ہے، لیکن صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا ہے کہ ان کے پاس ملک کے تجارتی خسارے کو ایک قومی ہنگامی حالت سمجھ کر اقدام کرنے کا اختیار ہے۔
یہ مقدمہ، پانچ چھوٹے کاروباریوں کی جانب سے لبرٹی جسٹس سینٹر نے دائر کیا تھا۔
مختلف ملکوں کو امریکی اشیاء برآمد کرنے والے ان کاروباریوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ٹرمپ کے محصولات کے لیے پہلا بڑا قانونی چیلنج ہے۔ تاہم، ٹیرف میں کئی دیگر قانونی چیلنجز بھی ہیں۔عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل
ٹرمپ انتظامیہ نے عدالتی فیصلہ آنے کے چند منٹوں میں ہی اس کے خلاف اپیل دائر کردی۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سکریٹری کش ڈیسائی نے ایک بیان میں کہا، ’’یہ فیصلہ کرنا غیر منتخب ججوں کا کام نہیں ہے کہ قومی ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’صدر ٹرمپ نے امریکہ کو اولین ترجیح (امریکہ فرسٹ) کا وعدہ کیا تھا، اور انتظامیہ اس بحران سے نمٹنے اور امریکی عظمت کو بحال کرنے کے لیے انتظامی طاقت کے ہر ذرائع کو استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
‘‘ٹرمپ نے ابھی تک عدالتی فیصلے پر براہ راست تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر میمز پوسٹ کیے ہیں۔
ایک سیاہ اور سفید تصویر جو بظاہر اے آئی سے بنائی گئی ہے، میں صدر کو کیمرے کی طرف ان الفاظ کے ساتھ چلتے ہوئے دکھاتی ہے ’’وہ خدا کی طرف سے ایک مشن پر ہیں اور جو کچھ آ رہا ہے اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
‘‘ایک بل بورڈ کی ایک اور تصویر میں لکھا ہے ’’صدر ٹرمپ کا ہر اقدام صحیح ہے۔‘‘
رد عمل
ہانگ کانگ کے مالیاتی سکریٹری پال چان نے کہا ہے کہ امریکی عدالتی فیصلہ "صدر ٹرمپ کو کم از کم دلائل پر سوچنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔‘‘
اس مہینے کے اوائل میں، چان نے کہا تھا کہ امریکی ٹیرف نے ہانگ کانگ کے لیے ’’معیشت پر بڑی غیر یقینی صورتحال‘‘ پیدا کر دی ہے۔
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز، جن کی متعدد مواقع پر ٹرمپ کے ساتھ تکرار ہو چکی ہے، نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
جیمز، جو ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن ہیں، نے کہا، ’’قانون واضح ہے: کسی بھی صدر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جب چاہیں اکیلے ہی ٹیکس بڑھا دیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’یہ محصولات کام کرنے والے خاندانوں اور امریکی کاروباریوں پر ٹیکسوں میں زبردست اضافہ ہیں جو مزید مہنگائی، تمام سائز کے کاروباروں کو معاشی نقصان، اور اگر جاری رہنے دیا جاتا تو ملک بھر میں ملازمتوں کے نقصانات کا باعث بنتے۔
‘‘مسک نے ٹرمپ انتظامیہ میں اپنا عہدہ چھوڑ دیا
ایلون مسک، جنہوں نے حکومتی اہلکاروں کی نااہلی کو کم کرنے کے لیے ایک محکمے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیسی اینسی (ڈی او جی ای) کی سربراہی کی، نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مسک ٹرمپ کے بجٹ بل میں اقدامات سے اختلاف کرنے کے بعد اپنا حکومتی عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی تصدیق کی کہ مسک ٹرمپ انتظامیہ کو چھوڑ رہے ہیں اور ان کی ’’آف بورڈنگ‘‘ بدھ کو ہو گی۔مسک کی روانگی کا فیصلہ ’’سینئر اسٹاف‘‘ کی سطح پر کیا گیا اور ارب پتی تاجر نے اپنے اعلان سے پہلے صدر ٹرمپ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی۔
ایک خصوصی سرکاری ملازم کے طور پر مسک کی 130 دن کی مدت 30 مئی کو ختم ہونے والی تھی۔ مسک نے خصوصی ذمہ داری تفویض کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ مسک کی قیادت والی ٹرمپ انتظامیہ کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیسی اینسی کے اقدامات اور فیصلوں کی بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔
ادارت: صلاح الدین زین