دنیا کی سمت پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول سے دور، گوتیرش

یو این منگل 15 جولائی 2025 19:15

دنیا کی سمت پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول سے دور، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 15 جولائی 2025ء) 2000 اور 2019 کے درمیان دنیا میں اوسط عمر 5 سال تک بڑھ گئی تھی لیکن کووڈ وبا نے اسے دو سال پیچھے دھکیل دیا۔ 2015 کے بعد 110 ملین سے زیادہ بچوں نے سکولوں میں داخلہ لیا ہے لیکن 2023 تک 272 ملین بچوں کو تعلیم تک رسائی نہیں تھی۔

پائیدار ترقی کے اہداف پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں جہاں پیش رفت دیکھنے کو ملی ہے وہیں بہت سی ناکامیاں بھی ہیں۔

اگرچہ دنیا پائیدار ترقی کی جانب نمایاں طور سے آگے بڑھی ہے لیکن 2030 کے ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کی جانب اس کا سفر بری طرح بے سمت ہے۔

Tweet URL

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ترقی کا راستہ دکھانے کے ساتھ یہ بھی بتاتی ہیں کہ 'ایس ڈی جی' کے اہداف اسی صورت حاصل ہو سکتے ہیں جب دنیا اس کے لیے ہنگامی بنیاد پر، متحد ہو کر اور غیرمتزلزل عزم کے ساتھ کام کرے گی۔

(جاری ہے)

یہ رپورٹ ایسے موقع پر جاری ہوئی ہے جب پائیدار ترقی پر اقوام متحدہ کا اعلیٰ سطحی فورم نیویارک میں شروع ہو گیا ہے جس میں سیکرٹری جنرل کی اس پکار کا مثبت جواب ملنے کی توقع ہے۔

مشترکہ جدوجہد

2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2030 کے ترقیاتی ایجنڈے کی منظوری دی تھی جس میں پائیدار ترقی کے لیے 17 اہداف کا تعین کیا گیا تھا جن میں غربت کا خاتمہ اور صحت و معیاری تعلیم کی خدمات تک ہر انسان کی مساوی رسائی یقینی بنانا بھی شامل ہے۔

یہ اہداف پائیدار اور ماحول دوست اقدامات کے ذریعے آئندہ نسلوں کو ترجیح دینے سے حاصل ہونا تھے۔

اقوام متحدہ میں شعبہ معاشی و سماجی امور کے انڈر سیکرٹری جنرل لی جُنہوا نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا دنیا کے اس اجتماعی ادراک کی نمائندگی کرتا ہے کہ تمام انسانوں کا مقدر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور پائیدار ترقی کا حصول ایک ایسی مشترکہ جدوجہد ہے جس سے سبھی کو فائدہ پہنچے گا۔

لیکن اس عزم سے دس سال کے بعد ترقیاتی ایجنڈے کو بہت سی کڑی مشکلات کا سامنا ہے جن میں ترقی پذیر دنیا کو درکار مالی وسائل میں چار ٹریلین ڈالر کی کمی اور بڑھتا ہوا ارضی سیاسی تناؤ بھی شامل ہے جس سے کثیرفریقی طریقہ کار کو نقصان ہو رہا ہے۔

ہنگامی ترقیاتی صورتحال

سیکرٹری جنرل نے اس مسئلے کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ پائیدار ترقی کے اہداف میں وہ ذرائع شامل نہیں جن کی موجودگی انہیں حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

ایسے ہی مسائل کے باعث فی الوقت 18 فیصد اہداف کا حصول ہی ممکن دکھائی دیتا ہے۔ 17 فیصد اہداف پر معتدل درجے کی پیشرف ہو رہی ہے، نصف سے زیادہ ایسے ہیں جن کے حصول کی جانب سفر انتہائی سست رو ہے جبکہ 18 فیصد کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکی ہے۔

انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا کو ترقیاتی حوالے سے ہنگامی حالات کا سامنا ہے۔ 800 ملین سے زیادہ لوگ تاحال شدید غربت کا شکار ہیں۔

انہیں کڑے موسمیاتی اثرات کا سامنا ہے اور وہ جن ممالک میں رہتے ہیں ان پر قرضوں کا بہت بھاری بوجھ ہے۔

کامیابیاں اور ناکامیاں

لی جُنہوا نے بتایا ہے کہ 2015 اور 2023 کے درمیان زچہ اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں اموات کی شرح 15 فیصد تک کم ہو گئی تھی۔ اسی عرصہ میں 54 ممالک میں گرم خطوں کی کم از کم ایک بیماری کا خاتمہ ہوا اور روک تھام کے اقدامات کی بدولت 2.2 ارب لوگوں کو ملیریا سے تحفظ ملا۔

یہ کامیابیاں نرے اعدادوشمار نہیں بلکہ ایسی زندگیوں کی نمائندگی کرتی ہیں جن میں تبدیلی آئی۔ یہ ایسے خاندانوں کے بارے میں بتاتی ہیں جنہیں غربت سے نکالا گیا اور ایسے علاقوں کی داستان ہیں جنہیں بہتر اور مزید مستحکم مستقبل کی تشکیل کے لیے بااختیار بنایا گیا۔

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ جہاں بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئی وہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو پسماندہ رہ گئے۔

اس وقت دنیا کے 10 فیصد لوگ شدید غربت کاشکار ہیں اور اس سے کچھ کم تعداد غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہی ہے۔ 1.1 ارب لوگ کچی بستیوں یا غیررسمی آبادیوں میں رہتے ہیں جنہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بشمول صاف پانی اور نکاسی آب تک رسائی میسر نہیں۔ علاوہ ازیں، 2024 میں ہر 12 منٹ کے بعد ایک فرد کی جنگ میں موت واقع ہوئی تھی۔

مستند معلومات کی ضرورت

سیکرٹری جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابل بھروسہ معلومات پائیدار ترقی کی بنیاد ہیں۔

انہی کی بدولت اقوام متحدہ، حکومتوں اور سول سوسائتی کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کتنی ترقی ہو چکی ہے اور ایسے شعبوں میں سرمایہ کاری کیسے بڑھائی جا سکتی ہیں جہاں مزید کام کی ضرورت ہے۔

2015 میں جب پائیدار ترقی کے ایجنڈے کی منظوری دی گئی تو صرف ایک تہائی 'ایس ڈی جی' کے حوالے سے خاطرخواہ معلومات دستیاب تھیں اور ایک تہائی سے زیادہ اہداف ایسے تھے جن کے حصول سے متعلق بین الاقوامی طور پر متفقہ طریقہ ہائے کار موجود نہیں تھے۔

آج 70 فیصد اہداف کی جانب پیش رفت کی درست نگرانی ہو رہی ہے۔ تاہم، ترقی کے عمل کی نگرانی کے ضمن میں پیش رفت کو بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔

UNIC Bogotá/Jose Rios

کامیابی کی کنجی

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ دنیا کے مالیاتی نظام میں نمایاں اصلاحات لائے بغیر 'ایس ڈی جی' کا حصول ممکن نہیں اور اس کا آغاز کثیرفریقی طریقہ کار کو مضبوط بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی معاشی و سماجی کونسل کے نائب صدر لوک بہادر تھاپا نے کہا ہے کہ آج 'ایس ڈی جی' کے بارے میں شروع ہونے والا اقوام متحدہ کا اعلیٰ سطحی سیاسی فورم دنیا کے لیے باعث امید ہے اور روایتی انداز سے ہٹ کر اجتماعی طور پر سوچنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ فورم اس بات کا اعتراف ہے کہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا اور پائیدار ترقی کے اہداف آئندہ پانچ برس میں مزید سرمایہ کاری اور عزم کا تقاضا کرتے ہیں۔

لی جُنہوا کا کہنا ہے کہ یہ مایوسی کا لمحہ نہیں بلکہ پرعزم طور سے عملی اقدامات کا موقع ہے۔ دنیا کے پاس تبدیلی لانے کے لیے درکار علم، ذرائع اور شراکتیں موجود ہیں اور اب اسے ہنگامی طور پر کثیرفریقی طریقہ کار اور مشترکہ ذمہ داری اور پائیدار سرمایہ کاری کے عہدنو کی ضرورت ہے۔