اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جولائی 2025ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کے روز حکومت کو حکم دیا کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرے، جن میں کہا گیا ہے کہ نوجوانوں کو آن لائن توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے۔ یہ حکم ان سینکڑوں خاندانوں کی اپیلوں کے بعد دیا گیا، جن کے عزیز گرفتار کیے گئے تھے۔
سن 2022 سے اب تک واٹس ایپ گروپس پر توہین مذہب کے الزامات کے تحت نوجوانوں کی گرفتاریوں میں تیزی آئی ہے۔
انسانی حقوق کے گروہوں اور پولیس نے بتایا ہے کہ کئی مقدمات نجی لاء فرموں کی جانب سے عدالت میں لائے جا رہے ہیں، جو رضاکاروں کے ذریعے انٹرنیٹ پر ایسے مواد کی تلاش کرتے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا، ''حکومت 30 دن کے اندر ایک کمیشن تشکیل دے گی۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کمیشن چار ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
مزید کہا گیا ہے کہ اس کمیشن کی کارروائی کو براہ راست نشر بھی کیا جائے تاکہ عوام ہر پیش رفت سے واقف رہیں۔توہین مذہب پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں ایک نہایت حساس الزام ہے، جس کی سزا موت ہے۔ یہاں تک کہ بغیر کسی ثبوت کے الزامات بھی عوامی اشتعال، ہجوم کے ہاتھوں مار پیٹ اور خاندانوں کے سماجی بائیکاٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔
حکومت کے زیر انتظام نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی اکتوبر 2023 میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق 767 افراد، جن میں اکثریت نوجوان مردوں کی ہے، توہین مذہب کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جیل میں ہیں۔
’یہ پیش رفت امید کی ایک کرن ہے‘
ان افراد کے خاندانوں کی وکیل ایمان مزاری نے کہا، ''یہ ایک بہت بڑی امید کی کرن ہے، پہلی بار ان خاندانوں کو محسوس ہوا ہے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا ہے، ایسے نازک نوعیت کے الزامات میں اگر وہ بری بھی ہو جائیں تب بھی بدنامی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
‘‘پنجاب پولیس کی سن 2024 میں جاری کردہ ایک رپورٹ، جو میڈیا کے ذریعے لیک ہوئی، میں انکشاف کیا گیا کہ 'ایک مشکوک گروہ نوجوانوں کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے‘ اور اس کے پیچھے مالی مفادات بھی ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے مقدمات چلانے والے وکلاء گروپوں میں سے ایک ''لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان‘‘ سب سے زیادہ فعال ہے۔
اس گروپ سے وابستہ شیراز احمد فاروقی نے اکتوبر میں اے ایف پی کو بتایا، ''خدا نے ہمیں اس مقدس مقصد کے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘گزشتہ چند برسوں میں کئی نوجوانوں کو عدالتوں نے قصور وار ٹھہرا کر سزائے موت سنائی تاہم پاکستان میں آج تک کسی کو توہین مذہب کے جرم میں پھانسی نہیں دی گئی۔
ایک ایسے ہی ملزم کے ایک رشتہ دار نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم اس کمیشن کی تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے اور پُر اعتماد ہیں کہ ہماری آواز سنی جائے گی، ہمارے خدشات کو سمجھا جائے گا، اور سچ سامنے آئے گا۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ