اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جون 2025ء) جوہری توانائی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے متنبہ کیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے قریب لا سکتا ہے۔
ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت عمان کی ثالثی میں جاری ہے، تاکہ اس کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔
تاہم اس دوران یہ بات بھی کئی بار کہی جا چکی ہے، کہ بات چیت کی ناکامی اور کسی معاہدے تک نہ پہنچنے کی صورت میں اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے انہیں ناکارہ بنا سکتا ہے۔یورپ اقوام متحدہ کی جوہری رپورٹ کا 'سیاسی' استعمال نہ کرے، ایران
گروسی نے اسرائیل کے ممکنہ حملے پر کیا کہا؟
آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے ایک اسرائیلی اخبار 'دی یروشلم ٹائمز' کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی، تو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے تہران کا موقف نہ صرف مزید سخت ہونے کا امکان ہے، بلکہ اس معاملے میں سفارت کاری بھی تعطل کا شکار ہو سکتی ہے۔
(جاری ہے)
گروسی نے کہا کہ ایرانی حکام نے انہیں حملے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ "میں آپ کو یہ اس لیے بتا رہا ہوں، کیونکہ انہوں نے مجھے براہ راست یہ بات بتائی ہے۔"
ایران جوہری مذاکرات: آئندہ ’دو دنوں میں‘ کوئی اعلان ممکن، ٹرمپ
پیر کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ "ممکنہ طور پر حملے کے مختلف اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جس سے ایران کا عزم مستحکم ہو سکتا ہے۔
۔۔۔ میں اگر صاف لفظوں میں کہوں، تو یہ کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کر سکتا ہے، یا پھر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے ہی دستبردار ہو جائے گا۔"انٹرویو کے دوران گروسی نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف ایسی کارروائی شروع کرے گا اور یہ کہ ایرانی جوہری تنصیبات اتنی گہرائی میں محفوظ ہیں کہ انہیں تباہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا، "تاہم ایک بات یقینی ہے۔ (ایرانی) پروگرام وسیع اور بہت گہرا بھی ہے۔ اور جب میں 'گہرا' کہتا ہوں تو اس کا مطلب واقعی گہرا ہے۔ ان میں سے بہت سی تنصیبات تو بہت اچھی طرح سے محفوظ ہیں۔ انہیں برباد کرنے کے لیے زبردست اور تباہ کن قوت کی ضرورت ہو گی۔"
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور
رافیل گروسی سے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ایران کے جوہری مقامات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے بارے میں کئی بار پوچھا گیا ہے اور انہوں نے ہمیشہ اس طرح کے خیال کی واضح مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ تعطل کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کو وقت دینا چاہیے۔
تہران اور واشنگٹن میں بات چیت جاری
آئی اے ای اے کے سربراہ نے ایک بار پھر سے یہ باتیں ایک ایسے وقت کی ہیں، جب ایران ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے امریکی تجاویز پر اپنی جوابی پیشکش کی تیاری کر رہا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر کے روز بتایا کہ امریکہ نے اس حوالے سے جو پیشکش کی ہے، اس میں کلیدی عناصر کی کمی ہے اور وہ پابندیوں میں راحت کو حل کرنے میں ناکام رہا جو کہ تہران کا دیرینہ مطالبہ ہے۔
بقائی نے تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ "ہم جلد ہی اپنا تجویز کردہ منصوبہ عمان کے ذریعے جمع کرائیں گے۔"
انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ کو بھی "غیر متوازن" قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس میں اسرائیل کی "جعلی دستاویزات" پر انحصار کیا گیا ہے۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ جوہری مذاکرات ’’تعمیری‘‘ رہے، ایران
آئی اے ای اے نے حال ہی میں اپنی تازہ رپورٹ میں ایران کے تعاون کو "تسلی بخش سے کم" قرار دیا تھا، خاص طور پر غیر اعلانیہ مقامات پر ماضی کی جوہری سرگرمیوں کو واضح کرنے کے بارے میں۔
ایک ایسے وقت جب واشنگٹن نے تہران کے ساتھ بالواسطہ جوہری مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں، امریکی صدر ٹرمپ نے پیر کے روز ایران کو "سخت" اور ہنر مند مذاکرات کار کے طور پر بیان کیا۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران کہا، "ہم اس وقت ایران پر بہت کام کر رہے ہیں۔ یہ مشکل ہے ۔۔۔۔ وہ عظیم مذاکرات کار ہیں۔"
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی تصدیق کی کہ دونوں رہنماؤں نے پیر کے دن بات چیت کی ہے اور ٹرمپ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ایران کے ساتھ بات چیت ہفتے کے اواخر میں جاری رہے گی۔
نئے امریکی ایرانی مذاکرات سے قبل سعودی وزیر دفاع تہران میں
پچھلے ہفتے ایک حیران کن تبصرے میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تنبیہ کی ہے کہ وہ نازک مذاکرات کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، "میں نے ان سے کہا کہ یہ ابھی کرنا نامناسب ہو گا، کیونکہ ہم ایک حل کے بہت قریب ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر