اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) ایک امام نے ان نتائج کو ''انتہائی تشویش ناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ برطانیہ میں '' اونچی سطح کے مسلم مخالف جذبات ‘ کا اظہار ہیں۔
’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ کی جانب سے یہ سروے اس کمیونٹی کے برطانیہ میں ہونے والے سب سے بڑے سالانہ اجتماع سے قبل کرایا گیا۔
اس اجتماع میں اس عقیدے کے 40 ہزار پیروکاروں کی شرکت متوقع ہے۔ اس اجتماع کو ' سالانہ جلسہ ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔برطانیہ: مسلم مخالف نفرت پر مبنی واقعات میں ریکارڈ اضافہ
برطانیہ میں مزید مساجد اور اسلامی مراکز پر حملوں کا خدشہ
منتظمین کا کہنا ہے کہ اس سال کے کنونشن کے دوران اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات رکھنے والے اور عقیدے کے بارے میں سوالات کرنے والے بھی اجتماع میں شریک ہو سکیں گے۔
(جاری ہے)
جولائی کے وسط میں برطانیہ میں کیے گئے YouGov سروے میں 2,130 بالغ افراد نے حصہ لیا۔ اس میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے لحاظ سے تارکین وطن کے مختلف گروہوں کا برطانیہ پر عام طور پر مثبت یا منفی اثر پڑتا ہے۔
41 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ مسلم تارکین وطن کا منفی اثر ہے، تاہم دیگر مذہبی گروہوں کے لیے ایسے جذبات کی شرح بہت کم رہی۔
رائے دہندگان میں سے تقریباﹰ 15 فیصد نے ہندو تارکین وطن کے بارے میں، 14 فیصد نے سکھ تارکین وطن کے بارے میں، 13 فیصد نے یہودی تارکین وطن کے بارے میں جبکہ سات فیصد نے مسیحی تارکین وطن کے بارے میں کہا کہ ان کا برطانیہ پر منفی اثر ہے۔صرف ایک چوتھائی (24 فیصد) جواب دہندگان کا خیال ہے کہ مسلم تارکین وطن کا برطانیہ پر مثبت اثر پڑا ہے، جو کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں کم ہے۔
سروے میں حصہ لینے والے 53 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام برطانوی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا جبکہ 25 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔
30 سالہ صباح احمدی نے، جنہیں آن لائن ''ینگ امام‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ لوگوں میں خوف ''اسلام کی تفہیم کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
‘‘انہوں نے کہا، ''ایک برطانوی مسلمان کی حیثیت سے یہ سوچنا افسوسناک ہے کہ ہمیں اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے ناپسند کیا جاتا ہے یا ہم سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ غیر منصفانہ ہے کیونکہ برطانیہ میں مسلم تارکین وطن کی ایک بڑی اکثریت مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔‘‘
سروے کے نتائج کے مطابق نوجوان برطانوی شہریوں میں یہ إحساس کم ہے کہ مسلمان تارکین وطن کے منفی اثرات ہیں اور یہ کہ اسلام برطانوی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
برطانیہ میں احمدیہ مسلم کمیونٹی زیادہ تر ان لوگوں اور ان کی اولادوں پر مشتمل ہے جو عام طور پر 1980ء کی دہائی میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف بڑھتے عدم برداشت کے سبب ملک چھوڑ کر وہاں آ گئے تھے۔
برطانوی حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق، ''برطانوی مسلمانوں نے جدید برطانیہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور طویل عرصے سے ہماری قومی زندگی کے ہر حصے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، '' کسی کو بھی اپنے عقیدے یا مذہب کے سبب نفرت، عدم رواداری یا ناپسندیدہ ہونے کا احساس نہیں ہونا چاہیے اور ہم ہر قسم کی مسلم مخالف نفرت سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
ا ب ا/ک م (ڈی پی اے، پی اے میڈیا)