پرامن جوہری توانائی کا حصول ایران کا حق، شہباز شریف

DW ڈی ڈبلیو اتوار 3 اگست 2025 19:40

پرامن جوہری توانائی کا حصول ایران کا حق، شہباز شریف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ایران کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق پُرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور پاکستان اس اصولی مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بات آج بروز اتوار اسلام آباد میں ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس سے قبل ایرانی صدر کا وزیراعظم ہاؤس پہنچنے پر پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہ ان کا بطور صدر پاکستان کا پہلا باضابطہ دورہ ہے۔ ان کے ہمراہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی، سینئر وزرا اور اعلیٰ حکام پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد بھی موجود تھا۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان گزشتہ دو برسوں میں پاکستان کا دورہ کرنے والے دوسرے ایرانی صدر ہیں۔

(جاری ہے)

ان سے قبل صدر ابراہیم رئیسی نے اپریل 2024 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ موجودہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب دونوں ممالک کو خطے میں کشیدگی اور معاشی دباؤ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔

دونوں ممالک نے بارہ شعبوں میں باہمی تعاون کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ ان میں سائنس و ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاحت، ثقافت، ورثہ، موسمیاتی تبدیلی، آفات سے نمٹنے، میری ٹائم سیفٹی، فائر فائٹنگ، عدالتی معاونت، اصلاحات، اور فضائی حفاظت کے شعبہ جات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ مصنوعات کے معیار اور آزاد تجارتی معاہدے پر عملدرآمد سے متعلق مشترکہ اعلامیہ بھی شامل ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے یہ مفاہمتی یادداشتیں جلد معاہدوں میں تبدیل ہوں اور دونوں ممالک باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جائیں۔ فی الحال دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباً تین ارب ڈالر ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ بلاجواز تھا۔

انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مہذب دنیا کو مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ ان کے بقول مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی غزہ سے مختلف نہیں۔

ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک مشترکہ اقتصادی زونز اور سرحدی تجارت کے فروغ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ سرحدی سکیورٹی بہتر بنانے پر بھی تعاون جاری ہے۔

دوطرفہ تعلقات میں 'نیا اعتماد‘

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' ایران-اسرائیل جنگ میں پاکستان کی تہران کے لیے حمایت کے بعد پاک ایران تعلقات میں نیا اعتماد آیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''بھارتی کردار کے باعث خطے میں کشیدگی موجود ہے کیونکہ ایران نے جاسوسی کے شبے میں حالیہ گرفتاریوں میں بھارتی شہریوں کو بھی شامل بتایا ہے۔

‘‘

ڈاکٹر عسکری نے کہا کہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دے رہا ہے ، '' اگرچہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر امریکی پابندیاں برقرار رہیں گی تاہم بارڈر مارکیٹس اور چھوٹے تجارتی اقدامات پر امریکہ کو اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘

تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاملہ عدالت میں ہے اور ایران تاخیر پر ہرجانہ بھی طلب کر سکتا ہے، اس لیے اس منصوبے کے مستقبل پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

ڈاکٹر ارم خالد کے مطابق پاکستان اور ایران کو بھارت اور اسرائیل کی مخالفت کا سامنا ہے، مگر حالیہ جنگوں میں دونوں ممالک نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے عالمی رائے بدل سکتی ہے۔ ان کے بقول، '' پاک ایران تعاون نہ صرف خطے بلکہ عالمی سفارت کاری پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے اور پاکستان مستقبل میں ایران اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان بات چیت میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

‘‘

پاکستان کا 'بیلنسنگ ایکٹ‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ثقلین امام کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران کے معاملے میں سفارتی توازن قائم رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''

پاکستان کے لیے واشنگٹن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھتے ہوئے تہران کے ساتھ بھی سفارتی روابط رکھنا ایک ''بیلنسنگ ایکٹ‘‘ ہے۔

اور فی الحال اسلام آباد کسی نہ کسی طرح یہ توازن قائم رکھے ہوئے ہے۔‘‘ تاہم ثقلین امام کے بقول یہ روابط زیادہ تر زبانی حد تک محدود ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’’وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کا پرتپاک استقبال ضرور کیا لیکن ملکی فوجی قیادت کی غیر موجودگی معنی خیز تھی۔ پاکستان میں فوج کا خارجہ پالیسی پر اثرو رسوخ دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ (فوج) خود کو ایران کی مغرب مخالف حکمت عملی سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

‘‘

ثقلین امام کے بقول ایرانی صدر کا یہ دورہ بظاہر ایران کی علاقائی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش تھا لیکن پاکستان میں اصل طاقت کے مراکز کے ردعمل نے واضح کر دیا کہ ایران کا اثر و رسوخ محدود ہے۔ امام کے بقول، ''یہ دورہ درحقیقت مسلم دنیا میں تقسیم، پاکستان کی امریکہ اور چین کے درمیان توازن کی حکمت عملی اور ایران کی سفارتی تنہائی کی جھلک پیش کرتا ہے۔‘‘